• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

گرفتار صحافی عمران ریاض اٹک جیل سے چکوال جیل منتقل

شائع July 8, 2022
صحافی اور یو ٹیوبر عمران ریاض خان— تصویر: ڈان نیوز
صحافی اور یو ٹیوبر عمران ریاض خان— تصویر: ڈان نیوز

صحافی اور یوٹیوبر عمران ریاض خان کی رہائی کے فوری بعد چکوال پولیس نے انہیں اٹک ڈسٹرکٹ جوڈیشل کمپلیکس سے گرفتار کر لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جج نے فیصلہ سناتے ہوئے اینکر پرسن عمران ریاض کے خلاف غداری کا مقدمہ خارج کر دیا تھا اور ناکافی شواہد کی بنا پر انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

صحافی عمران ریاض کو اٹک پولیس نے منگل کی رات اسلام آباد کے قریب سے حراست میں لیا تھا، انہیں جمعرات کی صبح مقامی عدالت نے ریلیف دے دیا تھا لیکن یہ ریلیف بہت مختصر ثابت ہوا کیونکہ چکوال پولیس کی ٹیم انہیں گرفتار کرنے کے لیے کمرہ عدالت کے باہر انتظار کر رہی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: عمران ریاض کی گرفتاری پر سینیٹ کمیٹیوں کا نوٹس، رپورٹ طلب

قبل ازیں، جج نے چکوال پولیس کی جانب سے اینکر پرسن کو ان کی تحویل میں دینے کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا جب کہ فاضل جج نے اہلکاروں کی قانونی طریقہ کار پر عمل نہ کرنے پر سرزنش بھی کی تھی۔

جج نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ عمران ریاض کو چکوال پولیس کے حوالے نہیں کیا جا سکتا لیکن جیسے ہی عمران ریاض اپنی رہائی کے بعد کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو انہوں نے رضاکارانہ طور پر خود کو انتظار کرنے والی پولیس پارٹی کے حوالے کر دیا جس نے بعد میں انہیں چکوال کے ایک پولیس اسٹیشن منتقل کر دیا۔

فیصلہ رات گئے سنایا گیا

صحافی کی رہائی کا حکم جج تنویر نے رات 3 بجے محفوظ کیا تھا جسے صبح 4 بجے کے قریب سنایا گیا جس میں جج نے عمران ریاض کی فوری رہائی کا حکم دیا۔ وکلا نے فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ اتنی صبح فیصلے کا اعلان اٹک کی عدالتی تاریخ میں کا پہلا فیصلہ ہے۔

مزید پڑھیں: صحافی عمران ریاض کو دوبارہ آج ہی اٹک کی عدالت میں پیش کرنے کا حکم

اپنے فیصلے میں جج نے کہا تھا اس وقت موجودہ کیس میں کافی شواہد نہیں ہیں جو ملزم عمران ریاض کو جرم کے ارتکاب کا مجرم ثابت کرے جیسا کہ کرائم رپورٹ میں درج ہے، اس لیے ملزم عمران ریاض خان کو کیس سے بری کیا جاتا ہے۔

ان کی رہائی کے حکم نامے میں مزید کہا گیا تھا کہ اس مرحلے پر پوری فوٹیج دیکھنے اور معاملہ سننے کے بعد پتا چلا کہ عدالت میں موجود ملزم نے کوئی نازیبا ریمارکس یا کوئی اور توہین آمیز لفظ استعمال نہیں کیا جس سے یہ کہا جا سکے کہ ملزم نے ایف آئی آرمیں درج کردہ جرائم کا ارتکاب کیا۔

جج نے فیصلے میں مزید کہا کہ پولیس سختی سے مکمل طور پر قانونی طریقہ کار اپناتے ہوئے معاملے کی مزید تفتیش کر سکتی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024