• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

اراکین کی وفاداری ہر سیاسی جماعت کا بنیادی حق ہے، چیف جسٹس

شائع July 5, 2022
چیف جسٹس نے اراکین سے کہا جب جماعت نے اجلاس سے بائیکاٹ کیا تو آپ نے شرکت کیوں کی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس نے اراکین سے کہا جب جماعت نے اجلاس سے بائیکاٹ کیا تو آپ نے شرکت کیوں کی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ اراکین کی وفاداری سیاسی جماعتوں کا بنیادی حق ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف اراکین کی طرف سے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) سے نااہلی کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران کہا ہے کہ انحراف چھوٹی بات نہیں یہ انسان کے ضمیر کا معاملہ ہے اور پارٹی سربراہ نہیں پارلیمانی لیڈر کی ہدایات پر عمل کرنا ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ 20 مئی کو پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعلیٰ کے امیدوار حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ دینے پر ای سی پی نے پی ٹی آئی کے 25 اراکین کو نااہل قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں: عمران خان نے منحرف اراکین کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا

ای سی پی کی طرف سے یہ فیصلہ ایک صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے چند دن بعد آیا تھا، جس میں آرٹیکل 63-اے کی تشریح طلب کی گئی تھی جو کہ انحراف پر قانون سازوں کی نااہلی سے متعلق ہے۔

دوران سماعت منحرف اراکین کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے کوئی ہدایات جاری نہیں کی تھیں۔

وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ کے امیدوار پرویز الہیٰ نے انتخاب کے روز اجلاس سے بائیکاٹ کردیا تھا، جس پر بینچ کے رکن جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے رکن ہوتے ہوئے آپ نے مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جب آپ کی جماعت نے اجلاس سے بائیکاٹ کیا تو آپ نے شرکت کیوں کی، سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں انحراف کو پہلے ہی کینسر قرار دے چکی ہے کیونکہ انحراف چھوٹی بات نہیں، یہ انسان کے ضمیر کا معاملہ ہے۔

پنجاب میں پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں سے نااہل ہونے والی رکن عظمیٰ کاردار روسٹرم پر آئیں اور کہا کہ مجھے پی ٹی آئی نے پارٹی سے نکالا، میرا کیس انحراف سے ہٹ کر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد: منحرف ارکان کے خلاف فیصلہ آئین کے مطابق ہوگا، اسد قیصر

چیف جسٹس نے کہا کہ مخصوص نشستیں سیاسی جماعت کی اسمبلی میں ٹوٹل نشستوں کے تناسب سے ہوتی ہیں، دیکھنا ہو گا کہ جب آپ کو پی ٹی آئی نے پارٹی سے ہی نکال دیا تو آپ رکن کیسے تھیں۔

عظمیٰ کاردار نے کہا کہ میں نے پی ٹی آئی کے لیے خون پسینہ لگا کر محنت کی آج بھی پارٹی کی رکن ہوں، پی ٹی آئی کی اندرونی سازشوں کی وجہ سے مجھے پارٹی سے بے دخل کیا لیکن پھر بھی قانون ساز رہی، مجھے آرٹیکل 63 اے نے تحفظ دیا کہ مجھ پر انحراف ثابت نہیں ہوا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کو نہیں معلوم تھا کہ آپ کو پارٹی سے نکال دیا گیا ہے جس پر نااہل کی گئی رکن پنجاب اسمبلی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے سامنے تمام دستاویزات موجود تھے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ واضح کر چکی ہے کہ منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہوگا، سیاسی جماعتوں کا بنیادی حق ہے کہ اس کا رکن اس سے وفاداری کرے۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی منحرف اراکین نااہلی کیس، الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کرلیا

چیف جسٹس نے برطانوی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے بورس جانسن کو شکست کہاں ہوئی، بورس جانسن کے خلاف کوئی تحریک عدم اعتماد پارلیمنٹ میں نہیں آئی تھی، بورس جانسن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پارلیمانی پارٹی میں لائی گئی تھی۔

عظمیٰ کاردار نے کہا کہ پی ٹی آئی میں کسی کی ہمت نہیں کہ پارٹی لیڈر کے خلاف بات کر سکے، ایک سال کہتے رہے کہ عثمان بزدار کی حمایت کرنی ہے جب بات نہیں بنی تو دوسری طرف چلے گئے۔

منحرف اراکین کے وکیل نے کہا کہ پنجاب اسملبی کی 5 مخصوص نشستوں کے نوٹی فکیشن پر ہمارا کیس غیر مؤثر ہوجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی نے اراکین کو شوکاز نوٹس کے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے، وکیل علیم خان

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ منحرف اراکین کا معاملہ کیس ٹو کیس دیکھیں گے، ہمارے سامنے پارٹی سربراہ کی ڈکٹیٹرشپ کا معاملہ بھی ہے۔

عدالت عظمیٰ نے پنجاب اسمبلی کے منحرف اراکین کو پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے کے نکتے پر تیاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024