ڈینم کمپنی سے 4 ہزار ملازمین کو نکالنے پر احتجاج
بہت سے بین الاقوامی فیشن برانڈز کے لیے ملبوسات بنانے والی ڈینم مینوفیکچرنگ کمپنی کے 4 ہزار سے زائد ملازمین کو ایک ساتھ نوکری سے نکال دیا گیا جس کے خلاف نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان اور ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن نے حتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس کی قیادت سمیع ساحر اور ہمت پھلپٹو نے کی جس میں بڑی تعداد میں برطرف ملازمین نے بھی شرکت کی۔
مزید پڑھیں: کسی بھی ادارے میں ’مزدور‘ کون ہوتا ہے؟
احتجاج کے دیگر شرکا میں نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان کے ناصر منصور اور رفیق بلوچ، ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی زہرہ خان، نیشنل لیبر کونسل کے کرامت علی، ڈینم کپڑوں کی کمپنی کے ملازمین شرن، احسن اور محمد زوہیب، سلمان خان، شکیل، دانیال، سارنگ جویو اور سندھ سجاگی فورم کی سوہنی جویو، پاکستان فشر فوک فورم کے سعید بلوچ، ایڈووکیٹ ساجد اور اردش تنویر، پاکستان ریلوے یونین کے منظور رضی، الٹرنیٹ کے عاقب حسین اور برکت، یونائیٹڈ ہوم بیسڈ گارمنٹس ورکرز یونین سائرہ فیروز اور رقیہ محمد حنیف نے شرکت کی۔
احتجاج میں شریک مزدور رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ برطرف مزدوروں کو بحال کیا جائے اور ان کی مراعات واپس دی جائیں۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے متاثرہ ملازمین کا کہنا تھا کہ ڈینم کپڑوں کی کمپنی کے کئی یونٹس ہیں جہاں ہزاروں کارکن کام کرتے ہیں، کورنگی انڈسٹریل ایریا میں واقع اسی کمپنی کا ایک یونٹ ملازمین کو استعفے دینے پر مجبور کر رہا تھا، یونٹ میں تقریباً 4 ہزار کارکنان تھے جن میں 2 ہزار خواتین بھی شامل ہیں جو مبینہ طور پر غیر انسانی حالات میں کام کر رہی تھیں۔
ملازمین کا کہنا تھا کہ ان میں سے جن لوگوں نے استعفیٰ نہیں دیا، انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جس میں انہیں واجبات کی ادائیگی کے بغیر کام سے نکالے جانا بھی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مہنگے برانڈز کے سستے مزدوروں کی بپتا
انہوں نے کہا کہ یہ مزدور فیکٹری میں 5 سے 10 سال سے کام کر رہے تھے، اب حکومت کی جانب سے اعلان کردہ کم از کم اجرت 25ہزار روپے اور عید بونس کی تقسیم سے بچنے کے لیے انتظامیہ نے غیر قانونی چھانٹی شروع کر دی ہے، انتظامیہ تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ سسٹم نافذ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جو لیبر قوانین کے خلاف ہے۔
مزدوروں کا کہنا تھا کہ ڈینم کپڑوں کی کمپنی میں لیبر قوانین کی مسلسل خلاف ورزی کی جارہی ہے حالانکہ فیکٹری بین الاقوامی فیشن برانڈز کے لیے سامان تیار کرتی ہے۔
ان برانڈز نے انڈسٹریل گلوبل یونین کے ساتھ گلوبل فریم ورک ایگریمنٹس کیے ہیں کہ سپلائی کرنے والی فیکٹریاں مقامی اور بین الاقوامی لیبر قوانین کی مکمل پاسداری کریں گی لیکن فیکٹری پچھلے 10 سال سے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
فیکٹری نے اپنے کارکنوں کو تحریری ملازمت کے معاہدے فراہم نہیں کیے جن میں سے اکثر ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشنز اور سوشل سیکیورٹی جیسی سہولت سے محروم ہیں۔
مقررین نے الزام لگایا کہ وہاں کی خواتین ورکرز کو جنسی طور پر ہراساں اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں ان کے بنیادی حقوق جیسے یونین کے قیام اور اجتماعی طور پر آواز اٹھانے کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان سے نوکری کیلئے بیرونِ ملک جانے والوں کی تعداد میں 27.6 فیصد اضافہ
کمپنی میں کارکنوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف محکمہ محنت میں تحریری شکایت درج کرائی گئی تھی، جس پر لیبر ڈپارٹمنٹ نے فیکٹری انتظامیہ سے جواب طلب کیا تھا لیکن انتظامیہ نے محکمہ لیبر کے نوٹس کو روندتے ہوئے کسی بھی پوچھ گچھ کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔
برطرف کارکنوں کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے بین الاقوامی برانڈز سے کہا کہ وہ گلوبل فریم ورک ایگریمنٹ کی تعمیل کریں اور اپنے مقامی سپلائرز کو معاہدوں کے مطابق مزدوری کے معیارات کا احترام اور ان پر عمل درآمد کرنے پر مجبور کریں۔