• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

فوج کو ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی اجازت دی گئی ہے، رانا ثنا اللہ

شائع July 3, 2022
رانا ثنااللہ نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ٹھیک نہیں  کیے تھے — فوٹو: ڈان نیوز
رانا ثنااللہ نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ٹھیک نہیں کیے تھے — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی نے عسکری قیادت کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کا اختیار دے دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عسکری قیادت مذاکرات سے متعلق ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کو آگاہ کرے گی اور اس کے بعد اس معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث کی جائے گی۔

وفاقی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ مذاکرات آئین پاکستان کے تحت ہی ہوں گے، آئین سے بالاتر کسی معاملے اور مطالبے پر بات چیت نہیں ہوگی اور نہ ہی ملک کے آئین سے ماورا کوئی معاہدہ کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: اب آئین شکن اور گھڑی چور جیلوں میں جائیں گے، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ

22 جون کو فوج نے سیاسی قیادت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ جاری بات چیت میں کالعدم ٹی ٹی پی کو آئین سے بالاتر کوئی بھی رعایت نہیں دی جائے گی جبکہ دہشت گرد گروہ کے ساتھ ہونے والا کوئی بھی معاہدہ پارلیمانی منظوری سے مشروط ہوگا۔

عسکری قیادت کی جانب سے یہ یقین دہانی وزیر اعظم ہاؤس میں سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی ایک ملاقات میں کرائی گئی تھی۔

قومی سیاسی قیادت اور فوج کے درمیان یہ پہلی ملاقات تھی جو افغان طالبان کی مدد سے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔

سیاسی قیادت اور فوج کے درمیان ہونے والی ملاقات کا اہتمام حکمراں اتحاد میں شامل ایک بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے مذاکرات کے بارے میں اعتماد میں نہ لیے جانے پر احتجاج درج کرنے کے بعد کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ای سی ایل رولز میں ترمیم، عدم ثبوت پر 120 دن میں نام خارج ہوگا، وزیر داخلہ

گزشتہ سال اکتوبر میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے انکشاف کیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ عسکریت پسندوں سے مذاکرات افغانستان میں ہو رہے ہیں اور نئے حکمراں یعنی طالبان حکومت ان مذاکرات کے عمل میں مدد کر رہے ہیں۔

عمران خان کے اس انکشاف کے چند روز بعد ان کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے یہ کہہ کر بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا تھا کہ وہ طالبان کے ہونے والے مذاکرات یا ایسے کسی بھی مکالمے سے لاعلم ہیں۔

رانا ثنااللہ نے ماضی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردانہ حملے کے بعد اس مسئلے کے حل کے لیے متفقہ حکمت عملی وضع کرنے کے لیے عمران خان سمیت سیاسی قیادت کو وزیر اعظم ہاؤس مدعو کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وکلا پر مبینہ تشدد: عدالت کا رانا ثنااللہ، اعلیٰ پولیس حکام کے خلاف مقدمے کا حکم

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد نے بھی حال ہی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کو پارلیمنٹ سے خفیہ رکھنے کا معاملہ اٹھایا تھا، اس موقع پر سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے کہا تھا کہ یہ مذاکرات موجودہ حکومت کے دور میں شروع نہیں ہوئے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ہم اس بات سے بھی بے خبر تھے کہ یہ مذاکرات کون کر رہا ہے اور یہ بات چیت کہاں ہو رہی ہے، وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی حالیہ ملاقات میں چیزیں واضح ہوئیں۔

اس سے قبل پولیس لائنز میں ایک تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ قرض معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے، گزشتہ حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ ٹھیک مذاکرات نہیں کیے اور اس کی جانب سے معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: کسی کو ملک میں انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، رانا ثنااللہ

انہوں نے کہا کہ ملک کی معیشت اتنی خراب اور بیمار ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو صرف ایک ارب ڈالر دینے لیے سخت شرائط عائد کردی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آئی ایم ایف سے بات چیت کرکے پوری کوشش کی اور ہر دلیل پیش کی کہ ہمیں ایندھن کی قیمتیں نہ بڑھانی پڑیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ حکمراں جماعت نے نئے مینڈیٹ کے حصول کے لیے اسمبلیاں تحلیل کرنے سے متعلق سوچ بچار اور غور و خوض کیا تھا لیکن اگر ان حالات میں پاکستان کو نگراں حکومت کے حوالے کیا جاتا تو ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ تھا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024