دنیا بالخصوص مسلمان ممالک افغان حکومت کو تسلیم کریں، افغان علما کا مطالبہ
افغانستان میں حکمران طالبان کی جانب سے منعقدہ علما کے اجتماع میں دنیا کے دیگر ممالک سے ان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا لیکن لڑکیوں کے اسکول کھولنے جیسے مطالبات پورے کرنے کے بارے میں کوئی عندیہ نہیں دیا۔
غیر ملکی خبررساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق مغربی ممالک کی جانب سے فنڈنگ روکنے اور سخت پابندیوں کے نفاذ سے افغانستان کی معیشت بحران کا شکار ہے، ان ممالک کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کو انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین کے حقوق کے بارے میں اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
اجتماع کے بعد جاری اعلامیے میں کہا کہ ہم علاقائی، بین الاقوامی اور خاص طور پر اسلامی ممالک سے کہتے ہیں کہ وہ 'امارت اسلامی افغانستان' کو تسلیم کرکے تمام پابندیاں ختم اور مرکزی بینک کے منجمد فنڈز جاری کریں اور افغانستان کی ترقی میں سپورٹ کریں، اب تک اس نام کو باضابطہ طور پر کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی پہلی مرتبہ کابل آمد، اجلاس میں شرکت
گروپ کے رہنما نے 4 ہزار سے زائد لوگوں پر مشتمل تین روزہ اجتماع میں شرکت کی اور تقریر میں شرکا کو طالبان کی فتح پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے ملک کی آزادی پر روشنی ڈالی۔
طالبان اپنے اعلان سے پیچھے ہٹ گئے ہیں جس میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ تمام اسکول مارچ میں کھل جائیں گے، جس کے بعد ہائی اسکولوں کی کافی لڑکیوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے جبکہ اس فیصلے کو مغربی ممالک نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اجتماع میں کی گئیں تقاریر سرکاری ٹی وی سے نشر کی گئیں لیکن بہت کم شرکا نے لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کے مسئلے کو اٹھایا، طالبان کے ڈپٹی لیڈر اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے کہا کہ دنیا قومی حکومت اور تعلیم کا مطالبہ کرتی ہے تاہم ان معاملات پر وقت درکار ہے۔
طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ جو عام طور پر قندھار میں رہتے ہیں اور عوامی مقامات پر کم ہی نظر آتے ہیں تاہم وہ کابل میں منعقدہ اس اجتماع میں شریک ہوئے اور کہا کہ غیرملکیوں کو احکامات نہیں دینا چاہئیں۔
مزید پڑھیں: افغان طالبان کا بدترین زلزلے کے بعد منجمد اثاثے جاری کرنے کا مطالبہ
اجتماع کے آخری بیان میں کہا گیا کہ اسلامی امارت کا دفاع ایک ذمہ داری ہے اور اسلامی ملک کے مسلح گروپ جو ملک میں متعدد حملوں کے پیچھے تھے، وہ غیر قانونی تھا۔
مزید بتایا گیا کہ ہم ہمسایہ ممالک کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے، انہیں بھی افغانستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
واضح رہے کہ افغان طالبان کے سربراہ شیخ ہیبت اللہ اخوندزادہ گزشتہ برس اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار ملک کے دارالحکومت کابل میں پہنچے تھے اور اجلاس میں شرکت کی۔
افغان طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخوندزاہ جن کی طالبان کی واپسی کے بعد سے عوامی اجتماع میں شرکت کی کوئی تصویر سامنے نہیں آئی تاہم انہوں نے کابل میں مذہبی اسکالرز اور قبائلی عمائدین کے ایک بڑے اجلاس کے دوسرے روز شرکت کی اور خطاب کیا، جہاں اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان کی معیشت کو خطرے میں ڈالنا نہیں چاہیے، حنا ربانی کھر
منتظمین نے کہا تھا کہ کہ ملک بھر سے 3 ہزار اسکالرز اور بااثر شخصیات اس جرگے میں شامل ہوئے ہیں جو کہ 2 جولائی تک جاری رہے گا۔
تبصرے (1) بند ہیں