ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ کراچی میں انتقال کر گئیں
عافیہ موومنٹ پاکستان کے رضا کاروں کے مطابق امریکا کی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی 80 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئیں۔
عافیہ موومنٹ پاکستان کے ترجمان محمد ایوب نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ وہ گردے اور سانس کی بیماری میں مبتلا تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صاحبزادی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ان کے ساتھ ناشتہ کیا جس کےبعد وہ گلشنِ اقبال میں واقع گھر سے ہسپتال چلی گئیں۔
پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ اور عافیہ موومنٹ پاکستان کے رضا کار الطاف شکور نے کہا کہ جب وہ تقریباً 11 بجے تک بیدار نہیں ہوئیں تو اہل خانہ میں سے کوئی ان کے کمرے میں گیا لیکن وہ جواب نہیں دے رہی تھیں۔
مزید پڑھیں: عدالت کی دفتر خارجہ کو عافیہ صدیقی سے ان کے اہل خانہ کی ملاقات میں مدد کی ہدایت
الطاف شکور نےسوشل میڈیا پر عصمت صدیقی کے انتقال کا اعلان کیا اور بتایا کہ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے سوتے ہوئے وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔
انہوں نے سوگوران میں 3 بچے چھوڑے ہیں، دو بیٹیاں ڈاکٹر عافیہ صدیقی، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور بیٹے محمد علی صدیقی جو پیشے کے اعتبار سے آرکیٹکٹ اور امریکا میں رہائش پذیر ہیں۔
عصمت صدیقی کی شادی نیوروسرجن صالح محمد سے ہوئی تھی جن کا انتقال 2002 میں ہوا تھا۔
وہ بھارت میں اتر پردیش میں پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی، انہوں نے ہجرت کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھی اور شہر میں سرسید گرلز کالج سے گریجویشن کیا۔
ترجمان نے مزید بتایا کہ عصمت بی بی نے فلاحی اور سماجی کام کرنے میں فعال کردار ادا کیا، جنرل (ر) ضیا الحق کے دور میں انہیں سینیٹر بنانے کی پیش کش کی گئی لیکن چھوٹے بچوں کی پرورش کے سبب وہ سینیٹر نہ بن سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی قید میں موجود ڈاکٹر عافیہ پر ساتھی قیدی کا حملہ
تاہم 1980 میں وہ زکوۃ اور عشر کمیٹی کی رکن بنیں اور غریبوں کی مدد کے لیے خاص طور پر بلوچستان کا بہت زیادہ سفر کیا۔
انہوں نے اپنی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکی جیل سے رہائی کے لیے مسلسل جدوجہد کا آغاز کیا تھا، انہوں نے ایک بار افسوس کا اظہار کیا کہ حکمرانوں کی غیر جانبداری یا بے حسی سے انہیں سخت تکلیف پہنچی ہے۔
الطاف شکور نے بتایا کہ عصمت صدیقی کی نمازِ جنازہ آج مدینہ مسجد گلشنِ اقبال بلاک 7 میں ان کے گھر کے قریب بعد نماز عشاہ 9 بجے ادا کی جائے گی۔
عافیہ صدیقی کی کہانی
پاکستانی شہری عافیہ صدیقی کی کہانی 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' سے جڑی کہانیوں میں سب سے اہم ہے، جو مارچ 2003 میں اُس وقت شروع ہوئی جب القاعدہ کے نمبر تین اور نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کو کراچی سے گرفتار کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ’حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کیلئے کوشاں‘
خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے بعد مبینہ طور پر 2003 میں ہی عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی سے لاپتہ ہوگئیں۔
عافیہ صدیقی کو لاپتہ ہونے کے 5 سال بعد امریکا کی جانب سے 2008 میں افغان صوبے غزنی سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔
امریکی عدالتی دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 'عافیہ صدیقی کے پاس سے 2 کلو سوڈیم سائینائیڈ، کیمیائی ہتھیاروں کی دستاویزات اور دیگر چیزیں برآمد ہوئی تھیں، جن سے عندیہ ملتا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہی ہیں'۔
مزید پڑھیں: عافیہ صدیقی کیس: وزارت خارجہ کی رپورٹ غیرتسلی بخش قرار، جوائنٹ سیکریٹری عدالت طلب
جب عافیہ صدیقی سے امریکی فوجی اور ایف بی آئی عہدیداران نے سوالات کیے تو انہوں نے مبینہ طور پر ایک رائفل اٹھا کر ان پر فائرنگ کر دی، جوابی فائرنگ میں وہ زخمی ہوگئیں، جس کے بعد انہیں امریکا منتقل کر دیا گیا جہاں 2010 میں انہیں اقدام قتل کا مجرم قرار دے کر 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔