• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

عمران خان کا لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف کل سپریم کورٹ جانے کا اعلان

شائع June 30, 2022
عمران خان نے کہا کہ مہنگائی کے ذمہ دار ہم ہیں تو اتنی محنت کرکے حکومت کیوں گرائی؟ — فوٹو: ڈان نیوز
عمران خان نے کہا کہ مہنگائی کے ذمہ دار ہم ہیں تو اتنی محنت کرکے حکومت کیوں گرائی؟ — فوٹو: ڈان نیوز

سابق وزیر اعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے کہا کہ آج جو لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا ہے ہم اس کے خلاف کل سپریم کورٹ میں جا رہے ہیں کہ حمزہ شہباز اب کیسے وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے جبکہ عدالت نے کہہ دیا ہے کہ اس کا انتخاب ہی غلط ہوا ہے تو وہ وزیر اعلیٰ کیسے ہوا۔

اسلام آباد میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان کسی وجہ سے بنا تھا اور اگر اس کی وجہ دیکھی جائے تو وہ یہ ہے کہ لوگ آزادی چاہتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال کی یہ کوشش تھی کہ لوگوں کو غلامی سے نجات دی جائے اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے لیے کہا جاتا تھا کہ غلام ہندوستان میں آزاد ذہن تھے اور ان کی تمام کوشش اور جدوجہد یہ تھی کہ اگر ہم ہندوستان میں رہ گئے تو آزاد نہیں ہوں گے۔

مزید پڑھیں: عمران خان نے 2 جولائی کو اسلام آباد میں احتجاج کے منصوبے کا اعلان کردیا

عمران خان نے کہا کہ ہمیں قائد اعظم کے خیالات پر سوچنا چاہیے جنہوں نے اس وقت ہی یہ پیشگوئی کی تھی کہ نریندر مودی کا بھارت بنے گا جس میں مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی تو اسی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس لیے نہیں بنا تھا کہ ہم ایک غلامی سے نکل کر دوسری غلامی میں آجائیں جبکہ پاکستان کا جو نعرہ تھا ’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہٰ اللہ‘ تو یہ آزادی کا نعرہ ہے جو انسان کو آزاد کر دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہمارا اس نعرے پر ایمان ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان کسی کی غلامی قبول کرے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے رحمت اللعالمینؐ اتھارٹی بھی بنائی تھی جس کا مقصد یہی تھا کہ ہمارے بچوں کو پتا چلے کہ یہ پاکستان کسی بڑے خواب کا نام تھا تو کم از کم ہمیں پتا چلے کہ پاکستان کیوں بنا تھا اور پھر جب ہم پاکستان کی قرارداد مقاصد کو دیکھتے جس کا کا مقصد اسلامی فلاحی ریاست ہے وہ مدینہ کی ریاست کی بنیاد پر بنی تھی اور یہ ہمارے بچوں کو کیوں معلوم نہیں ہے کہ مدینہ کی ریاست دنیا کی تاریخ کا بڑا انقلاب تھا۔

انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست اصولوں پر بنی تھی اور اس کا سب سے بڑا اصول قانون کی حکمرانی تھا اور جب حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اگر میری بیٹی بھی جرم کریں گی تو ان کو بھی سزا ملے گی اور فرمایا کہ تم سے پہلے بڑی قومیں تباہ ہوگئیں جو چھوٹے چوروں کو جیلوں میں ڈالتی تھیں اور طاقتور آدمی کو این آر او دیتی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آج ترقی پذیر ممالک کا جائزہ لیا جائے تو ان سب کا یہی مسئلہ ہے کہ وہ طاقتور کو نہیں پکڑ سکتے اور صرف چھوٹے چوروں کو جیلوں میں ڈالتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ کیوں غریب غریب ہوتا جارہا ہے اور امیر زیادہ امیر ہوتا جارہا ہے تو ایک وجہ سامنے آئی تھی کہ ہر سال 17 ارب ڈالر غریب ممالک سے چوری ہو کر منی لانڈرنگ کے ذریعے امیر ممالک یا آف شور اکاؤنٹس میں چلے جاتے ہیں اور اس فیکٹ فائنڈنگ کے مطابق غریب ممالک سے چوری کیے گئے 7 ہزار ارب ڈالر آف شور اکاؤنٹس میں رکھے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امپائر کو ساتھ ملانے کے باوجود ہم نے ان کو شکست دینی ہے، عمران خان

انہوں نے کہا کہ امیر اس لیے امیر ہوتا جارہا ہے کہ قانون کی حکمرانی نہیں ہے اور جب طاقتور کو ’این آر او وَن‘ اور ’این آر او ٹو‘ دیا جائے گا تو اس ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ آج لبنان جیسے ملک کی مثال ہمارے سامنے ہے جو کسی وقت میں دبئی ہوا کرتا تھا مگر آج وہاں 70 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے رہ رہے ہیں جس کی وجہ طاقتور کی کرپشن ہے جس کو وہ نہیں پکڑ سکتے۔

’ہمیں کہا گیا کہ اس طرح کے خط آتے رہتے ہیں‘

انہوں نے بیرونی مداخلت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب میں نے وہ خط دیکھا تو پہلے تین بار میں نے اسے پڑھا کہ کیا میں یہ سچ دیکھ رہا ہوں اور جب میں نے خط پڑھا تو اس میں نام لے کر لکھا ہوا تھا کہ ہم نے سنا ہے کہ روس جانے کا عمران خان کا اپنا فیصلہ ہے اور سفیر کہہ رہے تھے کہ یہ عمران خان کا نہیں بلکے ادارے کا فیصلہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہوئی تھی تو امریکی سفیر نے پاکستانی سفیر کو کہا کہ اگر تم نے عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نہیں نکالا تو بڑے نتائج کا سامنا کرنا ہوگا اور اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوگئی تو پاکستان کو سب معاف کردیا جائے گا۔

عمران خان نے کہا کہ جب میں نے خط پڑھا تو سوچا کہ کیا ایک منتخب نمائندے کی اس طرح توہین ہو سکتی ہے اور کسی کی جرأت ہے کہ اس طرح کا خط لکھا جائے، مگر بعد میں ہمیں کہا گیا کہ اس طرح کے خط آتے رہتے ہیں مگر کسی بھی عزت دار ملک میں اس طرح کا خط نہیں آتا اور کوئی عام افسر کہے کہ وزیر اعظم کو ہٹا دو۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم حکومت میں آئے تو پہلا سال مشکل تھا لیکن ہم نے بڑی کوششوں کے بعد دوست ممالک سے قرضہ لیا اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا جس نے سخت شرائط نافذ کردیں جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھی اور روپے کی قدر گری اور پھر دوسرے سال کورونا آگیا اور اسی طرح مشکلات سے نکل کر جب ترقی کی شرح 6 فیصد تک آئی تو اس وقت اپوزیشن کو یہ خیال کہاں سے آگیا کہ تباہی ہو رہی ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس تمام رکارڈ ہے کہ کون لوٹے بنے اور کون کون امریکی سفارت خانے جارہا تھا اور میں اس لیے چاہتا ہوں کہ سپریم کورٹ اس بیرونی مداخلت پر کمیشن بنائے جس کا پاکستان کو بہت بڑا فائدہ ہوگا اور ہم اپنی غلطیان ٹھیک کر سکیں گے۔

’مہنگائی کے ذمہ دار ہم ہیں تو اتنی محنت کرکے حکومت کیوں گرائی؟‘

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے شوکت ترین کے ذریعے نیوٹرلز کو بتایا کہ ملک کی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے اور اگر اس وقت اس کو غیر مستحکم کیا گیا تو معیشت سنبھالی نہیں جائے گی۔

مزید پڑھیں: سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب قانون میں ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

انہوں نے کہا کہ میں نے پہلے دن ہی کہا تھا کہ یہ تمام چور اکٹھے ہوں گے اور مجھ پر اتنا دباؤ ڈالیں گے کہ ہمیں کسی طرح این آر او ملے لیکن میرا ذہن ایک چیز تسلیم نہیں کر رہا تھا کہ کیا یہ لوگ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا دیں گے اور کیا آصف زرداری پھر سے اقتدار میں آجائے گا۔

عمران خان نے کہا کہ ہم نے نہیں کہا کہ یہ لوگ کرپٹ ہیں مگر بی بی سی جیسے اداروں کی ان کی کرپشن پر ڈاکیومینٹریز آ چکی ہیں اور پرویز مشرف نے ان لوگوں کو این آر او دے کر ملک پر بڑا ظلم کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ شاید وہ لوگ اس غلط فہمی میں تھے کہ شہباز شریف نے جو اشتہارات پر 50 ارب خرچ کیے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ ملک کو بہتری کی طرف لے جائے گا لیکن اب اس کا ذمہ دار کون ہوگا جس طرح انہوں نے ملکی معیشت کو تباہ کیا ہے اور ان کی اپنی حکومت کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ سب سے زیادہ ہدف ہم نے حاصل کیا اور آج مہنگائی اوپر ہے اور معیشت نیچے ہے تو اس چیز کا ذمہ دار کون ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب پرویز مشرف نے ملک کو امریکا ۔ افغانستان جنگ میں شامل کیا جس میں 80 ہزار پاکستانی جاں بحق ہوئے تو اس بات پر کیوں کسی نے نہیں پوچھا کہ ہمیں اس جنگ میں کیوں شامل کیا گیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ جب ہم یہ فیصلہ کر بیٹھیں کہ جو بھی وہاں سے حکم آئے گا ہم اسے مان بیٹھیں گے تو کیا ان لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ بین الاقوامی تعلقات میں کوئی دوستی نہیں ہوتی صرف مفادات ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ بیرونی مداخلت پر کوئی انکوائری نہ ہو لیکن اس ملک کے مفاد کے لیے اس پر انکوائری لازم ہے، اگر ملک کو تباہ کرنا ہے تو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے بس ان چوروں کو ملک پر مسلط کردیں۔

عمران خان نے کہا کہ اگر آئی ایم ایف کی طرف سے لگائی گئی شرائط کی وجہ سے مہنگائی کا ذمہ دار ہمیں ٹھہرا رہے ہیں تو اتنی محنت کرکے حکومت کیوں گرائی، ہمیں رہنے دیتے ہم وہ ذمہ داری قبول کرتے۔

انہوں نے کہا کہ اس حکومت نے وہ چیزیں کی ہیں کہ سفید پوش جرائم کو پکڑنا ناممکن ہوگیا ہے۔

’امیدواروں کو کالز آرہی ہیں کہ ان کے ٹکٹ مت لیں‘

سابق وزیر اعظم نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں چھوڑیں مگر حکومت کی اتحادی ایم کیو ایم اور جے یو آئی (ف) سے پوچھ لیں کہ وہ انتخابات سے متعلق کیا کہہ رہے ہیں کیونکہ سندھ میں 15 فیصد انتخابات انہوں نے بغیر مقابلے کے کامیاب کردیے جس میں پولیس اور انتظامیہ نے کارروائیاں کی۔

یہ بھی پڑھیں: نومبر میں آرمی چیف کا تقرر میرٹ پر کرتا، عمران خان

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی بڑے پیمانے پر مداخلت ہو رہی ہے کیونکہ جن امیدواروں کو میں ٹکیٹ دے رہا ہوں وہ بتا رہے ہیں کہ ہمیں فون کالز آرہی ہیں کہ ان کے ٹکٹ مت لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج جو لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا ہے ہم اس کے خلاف کل سپریم کورٹ میں جا رہے ہیں کہ حمزہ شہباز اب کیسے وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے جبکہ عدالت نے کہہ دیا ہے کہ اس کا انتخاب ہی غلط ہوا ہے تو وہ وزیر اعلیٰ کیسے ہوا۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ اپنی کرپشن بچانے کے لیے حکومت میں آئے ہیں وہ پاکستان کی خودمختاری پر کیا کریں گے، انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان میں جو بھی مسائل ہیں اس کا واحد حل صرف شفاف انتخابات کی طرف جانا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024