افغانستان کی معیشت کو خطرے میں ڈالنا نہیں چاہیے، حنا ربانی کھر
وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے طالبان حکومت کے ماتحت افغانستان پر عائد کی گئی مغربی پابندیوں میں نرمی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کی معیشت کے بنیادی عمل کو خطرے میں نہ ڈالا جائے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق طالبان کے گزشتہ برس اقتدار پر قبضے کے بعد امریکا کی زیر قیادت بیرونی حکومتوں نے افغانستان کی ترقیاتی اور سیکیورٹی امداد منقطع کردی تھی اور سخت پابندیوں کے نفاذ نے ملک کے بینکنگ سیکٹر کو تباہ کردیا ہے۔
جرمنی کی ’ویلٹ‘ اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے حنا ربانی کھر نے کہا کہ افغانستان کو معاشی طور پر تنہا کرنے کا مطلب ملک کو معاشی بحران کی طرف دھکیلنا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان تنہائی کا شکار نہیں، خارجہ پالیسی درست سمت میں گامزن ہے، حنا ربانی کھر
انہوں نے کہا کہ اگر ملک کو عالمی بینکوں سے منقطع کردیا جائے گا اور اس کے بیرونی مالی اثاثے روک دیے جائیں گے تو پھر وہی ہوگا جو ہو رہا ہے، اس لیے ہمیں قحط کو فروغ نہیں دینا چاہیے۔
وزیر مملکت برائے خارجہ امور نے افغانستان پر عائد کی گئی معاشی پابندیوں میں نرمی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے جرمنی سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے مغربی فوجیوں کا انخلا جس میں جرمنی بھی شامل تھا اس نے ملک پر سنگین اثرات چھوڑے ہیں، کیونکہ اس معاملے کو پہلے بات چیت کے ذریعے حل نہیں کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ موجوہ حالات میں افغانستان کو بدحالی میں چھوڑنا اور ملک کو معاشی تنگی کی طرف دھکیلنا درست خیال نہیں ہے اور مطالبہ کیا کہ افغان باشندوں کی مدد کرنے کے لیے معاشی مدد کرنا لازمی ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم نے جنگ پر تو 3 کھرب ڈالر خرچ کیے مگر آج افغانستان کی مدد کرنے کے لیے ہمارے پاس 10 ارب ڈالر بھی نہیں ہیں اور مجھے یہ رویہ سمجھ میں نہیں آتا۔
طالبان کا اقتدار پر قبضہ
واضح رہے کہ گزشتہ برس اگست میں جب امریکا نے اپنے فوجیوں کو افغانستان سے نکال لیا تو فوری طور پر افغان طالبان نے ملک کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا، افغان طالبان نے تقریباً 20 برس بعد اقتدار پر قبضہ کیا کیونکہ امریکا کی زیر قیادت فوجیوں نے 11 ستمبر 2001 میں امریکا کے ٹریڈ ٹاور پر حملے کے بعد انہیں اقتدار سے نکالا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ’برکس‘ میں شامل ایک رکن نے پاکستان کو اجلاس میں شرکت سے روکا، دفتر خارجہ
اقتدار سنبھالنے کے چند دن بعد ہی امریکی انتظامیہ نے 9/11 کے حملوں کے متاثرین کو معاوضہ دینے کے لیے امریکی بینکوں میں افغان حکومت کے تقریباً 9.5 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے تھے۔
دوسری جانب بینکوں نے بھی نجی صارفین کی طرف سے رقم نکالنے پر سخت پابندیاں عائد کردی تھی جس کی وجہ سے ملک میں بہت سے لوگوں نے اپنے خاندانوں کے لیے کھانا خریدنے کے لیے گھریلو سامان فروخت کرنے کا سہارا لیا ہے۔
افغانستان ایک بڑے انسانی بحران کا سامنا کر رہا ہے اور اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان کے 3 کروڑ 80 لاکھ میں سے نصف سے زیادہ افراد کو قحط کا سامنا ہے۔ ملک کی معیشت جو کہ پہلے ہی کئی دہائیوں سے جنگ کی زد میں ہے وہ اب طالبان کی واپسی کے بعد زوال کا شکار ہوگئی ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں بحران کو روکنے کیلئے طالبان کے ساتھ بین الاقوامی رابطوں پر زور
مغربی ممالک نے طالبان کے اثاثے منجمد کرنے کو انسانی حقوق کا احترام کرنے سے منسلک کیا ہے اور خاص طور پر خواتین کو کام کرنے کی اجازت دینے اور لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت کے حوالے سے منجمد اثاثوں کو منسلک کیا ہے۔