روس سے تیل کی درآمد میں فائدے سے زیادہ نقصانات
تیل کی لاگت کم کرنے کے لیے روس سے تیل کی درآمدات ممکنہ طور پر عملی جامہ نہ پہن سکے کیوں کہ اس کے منفی اثرات فائدوں پر بھاری اور ماسکو کی عدم دلچسپی کا عنصر بھی موجود ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ تمام ریفائنریز میں معمولی تبدیلیوں کے ساتھ روسی خام گریڈز کو پراسس کرنے کے لیے 30 سے 35 فیصد تک تکنیکی صلاحیت موجود ہے۔
تاہم کوئی پاکستانی ریفائنری کسی بھی گریڈ کے روسی خام تیل کو 100 فیصد نہیں سنبھال سکتی، اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ روس سے درآمدات تیل کے ذرائع کو متنوع بنانے میں مدد کر سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا روس سے تیل کی خریداری پر غور، آئل کمپنیوں سے تجاویز طلب
جب عالمی سطح پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے معیشت کے تمام پہلوؤں کو متاثر کیا تو سابق وزیر اعظم عمران خان نے روس سے رعایتی نرخ پر خام تیل کی خریداری کا خیال پیش کیا تھا۔
تاہم جب موجودہ اتحادی حکومت اقتدار میں آئی تو وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے دعویٰ کیا کہ روس نے گزشتہ حکومت کی جانب سے کی گئی اس پیشکش کا جواب نہیں دیا تھا۔
تاہم خطے کی موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں مالیاتی انتظام سب سے بڑی مشکل ہے۔
درحقیقت بڑی ریفائنریز میں سے ایک نے حال ہی میں روس سے خام تیل کے کارگوز منگوائے تھے لیکن یہ تھرڈ پارٹی معاہدے کے ذریعے کیا گیا تھا جس کا مطلب یہ کہ کسی نجی تاجر نے پاکستانی ریفائنری کو مختلف پورٹس پر تیل فراہم کیا ہوگا اور یوں ادائیگی کسی روسی ادارے کو نہیں جائے گی۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی حکومت کے روس سے تیل کی خریداری کے معاہدے کا علم نہیں، روسی قونصل جنرل
تاہم صنعت کے ایک سینئر ایگزیکٹو نے کہا کہ بڑے پیمانے پر اس قسم کے انتظامات پائیدار نہیں ہیں۔
یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ پاکستانی درآمد کنندگان جو غیر ملکی زرِمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر اور ملک کے خطرے کے شکار پروفائل کے باعث عمومی لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) کا انتظام کرنے کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں انہیں یہ فیصلہ لینے کے لیے کوئی مالی حمایت حاصل نہیں ہے۔
بڑے پاکستانی بینکس مثلاً نیشنل بینک آف پاکستان اور حبیب بینک موجودہ صورتحال میں یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے کیونکہ ان کے زیادہ تر آپریشنز مغربی ممالک کے ساتھ وابستہ ہیں۔
البتہ نسبتاً چھوٹے بینکس مثلاً فیصل، میزان، حبیب میٹرو جن میں مشرق وسطیٰ اور سوئس حصص دار ہیں وہ اس قسم کے انتظامات کی جانب جاسکتے ہیں لیکن اس کے بعد پاکستان میں مضبوط سیاسی عزم اور اس سے زیادہ روس کا مضبوط وعدہ درکار ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: 'روس ہمیں تیل 30 فیصد کم قیمت پر دے رہا تھا'
متعدد ریفائننگ ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ حکومت، روسی تیل کی درآمدات کے آپشن پر غور کر رہی ہے لیکن یہ درآمدات میں حقیقی دلچسپی سے زیادہ دکھاوا تھا کیونکہ اتحادی حکومت کا جھکاؤ روس سے زیادہ مغرب کی جانب ہے۔
ذرائع نے کہا کہ حال ہی میں وزارت خارجہ میں توانائی کی درآمدات بالخصوص روس سے خام تیل کی درآمد پر غور کیا گیا تھا لیکن کوئی حتمی سمت اختیار نہیں کی گئی۔
اجلاس میں ہوئی بات چیت کی بنیاد پر وزارت توانائی اور اس کی چاروں ریفائنریز کو کہا گیا تھا کہ روس سے خام تیل کی درآمدات پر تجزیہ اور رائے پیش کریں۔