ہم کیا کچھ خریدتے ہیں اور کتنا خریدتے ہیں؟
قارئیں خبردار رہیں، یہ عنوان گمراہ کن ہوسکتا ہے لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی کے علاوہ ہماری بدلتی ہوئی کنزیومر پرائز انڈیکس (سی پی آئی) باسکٹ ہمارے طرزِ زندگی کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے۔
ہماری موجودہ سی پی آئی باسکٹ کی بنیاد 16ء-2015ء کا فیملی بجٹ سروے ہے۔ اسے پاکستان بیورو آف اسٹیٹ اسٹکس (پی بی ایس) نے شائع نہیں کیا تھا۔ یہ ادارہ ہاؤس ہولڈ انکم اینڈ ایکسپینڈیچر سروے شائع کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
ہر فیملی بجٹ سروے کے ساتھ ہی پی بی ایس ایک بیس ایئر اور اشیائے صرف کی باسکٹ کا تعین کرلیتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں آئندہ چند سال تک تبدیل نہیں کی جاتیں یہاں تک کہ پی بی ایس دوبارہ بیس تبدیل کرے۔ گزشتہ سی پی آئی باسکٹ کی بنیاد 08ء-2007ء میں ہونے والا سروے تھا۔ اس سے قبل ان کا تعین 02ء-2001ء، 91ء-1990ء، 81ء-1980ء، 76ء-1975ء، 70ء-1969ء اور 60ء-1959ء کے بیس ایئر میں کیا گیا۔
اس نئی باسکٹ سے نکلنے والی اور اس میں شامل ہونے والی اشیا کو دیکھ کر ہی ہم اپنے طرزِ زندگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کسی چیز کے اس باسکٹ سے نکل جانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اب متروک ہوچکی ہے بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ اب ایک اوسط گھرانے کے ماہانہ اخراجات میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی۔ اسی طرح کسی ایسی چیز کا بھی اضافہ ہوسکتا ہے جو نئی تو نہ ہو لیکن اس بیس ایئر کے دوران اہمیت رکھتی ہو۔
بعض اوقات یہ چیزیں نئی بھی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر 16ء-2015ء میں اس باسکٹ میں بوتل بند پانی اور 08ء-2007ء میں ڈبہ بند دودھ شامل ہوا۔ یہ اشیا پہلے بھی استعمال ہورہی تھں لیکن ایک اوسط گھرانے کے اخراجات میں ان کا حصہ معمولی سا تھا۔ یہ بات غور کرنے کی ہے کہ انسان دودھ اور پانی اس وقت سے استعمال کررہا ہے جب حضرت آدم اور حضرت حوا جنت میں تھے۔ تو کیا مستقبل کی سی پی آئی باسکٹ میں سانس لینے کے لیے درکار ہوا کی بوتلیں بھی شامل ہوں گی؟ ہمیں نہیں معلوم۔ بہرحال کوہ پیماؤں اور جن مریضوں کی حالت نازک ہو انہیں زندہ رہنے کے لیے آکسیجن سلینڈر سے بار بار آکسیجن لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔
مزید پڑھیے: سائیکل چلائیں، ڈالر بچائیں
شہری اور دیہی علاقوں میں لباس کا فرق 16ء-2015ء میں شہری سی پی آئی باسکٹ سے دھوتی کے غائب ہونے سے دیکھا جاسکتا ہے کیونکہ دیہی علاقوں میں یہ آج بھی سی پی آئی باسکٹ میں موجود ہے۔ پینٹ اور کوٹ کو ڈرائے کلین کروانے کے اخراجات شہری باسکٹ میں تو شامل ہوگئے ہیں لیکن دیہی علاقوں میں ابھی ایسا نہیں ہوا۔ لپ اسٹک اور نیل پالش 08ء-2007ء میں سی پی آئی باسکٹ میں شامل ہوئے تھے، یہ شہری سی پی آئی باسکٹ میں تو شامل ہیں لیکن دیہی باسکٹ میں نہیں۔
ہے ناں حیران کن بات؟ اسی طرح 08ء-2007ء میں سونا، چاندی اور مصنوعی زیورات بھی سی پی آئی باسکٹ میں شامل ہوئے۔ شہری باسکٹ میں اب بھی یہ تینوں شامل ہیں تاہم دیہی باسکٹ میں اب چاندی شامل نہیں ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین چاندی کے بجائے سونے یا سونے کی طرح نظر آنے والے زیورات کو ترجیح دیتی ہیں۔ نئی شہری اور دیہی سی پی آئی باسکٹس میں خواتین کے پرس بھی شامل ہیں، ناجانے 08ء-2007ء کی سی پی آئی باسکٹ میں یہ کیوں شامل نہیں تھے۔
08ء-2007ء کی باسکٹ میں گھر پر اور فیکٹری میں تیار ہونے والی رضائیاں بھی شامل تھیں لیکن 16ء-2015ء کی باسکٹ میں صرف فیکٹری میں تیار ہونے والی رضائیاں ہی موجود ہیں۔ گھر پر بنی رضائیوں کی عدم موجودگی حیران کن ہے کیونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کم از کم دیہی علاقوں میں تو انہیں استعمال کیا جارہا ہوگا۔ یہ شہری اور دیہی زندگی میں مٹتے ہوئے فرق اور دیہی علاقوں میں آمدن میں ہونے والے اضافے کا اشارہ ہے۔ اگر کھانا پکانے کے برتنوں کی بات کی جائے تو 16ء-2015ء کی باسکٹس میں سے پریشر کُکر غائب ہوگیا اور شہری باسکٹ میں اس کی جگہ نان اسٹک فرائنگ پین نے لے لی، یہ ایک نیا اضافہ ہے۔
مزید پڑھیے: ’مجھے نوکری سے نکالا تو میں نے اپنا کام شروع کردیا اور تنخواہ جتنا کما بھی لیا‘
نئی باسکٹ میں ایک اور دلچسپ چیز شامل ہوئی ہے جو ہمارے سیاسی اور سماجی حالات سے بھی متعلق ہے اور وہ ہے لوٹا۔ حیران کن طور پر یہ 08ء-2007ء کی باسکٹ میں شامل نہیں تھا۔ سب کو معلوم ہے کہ لوٹا کس لیے استعمال ہوتا ہے اور ہمارے معاشرے میں یہ ایک ضروری چیز ہے۔ سیاست میں لوٹا اس ڈبل ایجنٹ کو کہتے ہیں جو حکومت گرانے اور بنانے میں کام آئے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ماضی میں لوٹا باسکٹ میں شامل کیوں نہیں تھا کیونکہ یہ لوگوں (اور سیاستدانوں کو بھی) وہی سہولیات آج بھی فراہم کررہا ہے جو پہلے کیا کرتا تھا۔
شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوٹے پائیدار ہوتے ہیں، آپ انہیں سال یا 2 سال میں ایک ہی مرتبہ خریدتے ہیں۔ اس باسکٹ میں ان کے شامل ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اب مہنگے ہوگئے ہوں۔ پی بی ایس کے مطابق ’لوٹا پلاسٹک درجہ اوسط‘ کی قیمت نومبر 2019ء میں 68 روپے 13 پیسے تھی جو فروری 2021ء میں بڑھ کر 75 روپے 21 پیسے ہوگئی۔ اس سے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ لوٹے بہت مہنگے نہیں ہوئے، تو ممکن ہے سی پی آئی باسکٹ میں اس کی شمولیت کی کوئی اور وجہ ہو۔
ناجانے کس وجہ سے سال 16ء-2015ء میں لوٹے خریدنے والے گھرانوں کی تعداد خاصی رہی ہوگی تبھی ان پر ہونے والے اخراجات کے سبب لوٹوں کو سی پی آئی باسکٹ میں شامل کیا گیا۔ اس کی اصل وجہ تو پی بی ایس کو ہی معلوم ہوگی جو نہ ہی ہر شے کی بیس ایئر قیمت شائع کرتا ہے اور نہ ہی کُل اخراجات میں ان کا حصہ شائع کرتا ہے۔ ہاں یہ ادارہ درجن بھر گروپس میں شامل 94 اشیا کا حصہ (اور ان کی قیمتوں کا اشاریہ) ضرور شائع کرتا ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ مستقبل میں لوٹے مسلم شاور کے پریشر کو بردارشت کرسکیں یا نہیں۔
مزید پڑھیے: ٹیکس معافیوں سے پاکستان کو کتنا نقصان ہورہا ہے؟
اوپر ذکر کی گئی کچھ چیزوں کے علاوہ پی بی ایس نے ’میتھوڈولوجی آف پرائز اسٹیٹ اسکٹس بیس ایئر 16ء-2015ء‘ میں سی پی آئی کی بہت عمدہ وضاحت کردی ہے۔ شہری سی پی آئی باسکٹ میں 356 اور دیہی باسکٹ میں 244 اشیا شامل ہیں۔ دونوں باسکٹ کو 12 گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں غذائی اشیا اور نان الکحلک مشروبات (40.9، 30.4)، الکحلک مشروبات اور تمباکو (1.3، 0.8)، کپڑے اور جوتے (9.5، 8.0)، رہائش، پانی، بجلی، گیس اور دیگر ایندھن (18.5، 27.0)، تزئین و آرائش اور گھر کی مرمت (4.1، 4.1)، صحت (3.5، 2.3)، ٹرانسپورٹ (5.6، 6.1)، مواصلات (2.0، 2.4)، تفریح و ثقافت (1.4، 1.7)، تعلیم (2.1، 4.9) ریسٹورنٹس اور ہوٹل (6.2، 7.4) اور دیگر اشیا اور خدمات (5.0، 4.8) شامل ہیں۔ یہاں قوسین میں دیے گئے نمبر شہری اور دیہی اخراجات میں ان چیزوں کی شرح ہے۔
یہ شرح ہماری ترجیحات اور شہری اور دیہی معاشروں میں خریداری اور استعمال کے رجحانات کی بھی عکاس ہے۔ ہم اکثر حکومت پر تنقید کرتے ہیں کہ حکومت تعلیم پر بہت کم خرچ کرتی ہے، ہم خود کو نہیں دیکھتے کہ ہم بھی اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات سے زیادہ خرچہ باہر کھانے پر کردیتے ہیں۔
بدقسمتی سے یہ صورتحال شہری اور دیہی آبادی دونوں کے لیے یکساں ہے۔ اسی طرح گھروں کی آرائش پر ہونے والے اخراجات کی شرح بھی شہری اور دیہی علاقوں میں یکساں ہے، یہ اس بات اشارہ ہے کہ دیہی علاقوں کے گھروں کا طرزِ زندگی بھی شہری علاقوں کے گھروں جیسا ہورہا ہے۔ بعض اوقات ہمیں شہروں میں بھی ایسے علاقے نظر آتے ہیں جو دیہاتوں کا نقشہ پیش کررہے ہوتے ہیں۔ کیا یہ اچھی بات ہے یا بُری؟ ایسے بہت سارے سوالات ہیں جن کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
یہ مضمون 30 جون 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں