حکومت کی آڈیٹر جنرل کو بلین ٹری سونامی منصوبے کے آڈٹ کی ہدایت
حکومت نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے کہا ہے کہ وہ تحریک انصاف حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے بلین ٹری سونامی پروجیکٹ کا آڈٹ کرائیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وزارت نے باضابطہ طور پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے '10 بلین ٹری سونامی پروگرام کے قومی اسٹریٹجک سپورٹ یونٹ، فیز ون، گرین پاکستان پروگرام کی توسیع کا خصوصی آڈٹ کرنے کے لیے کہا ہے۔
مزید پڑھیں: 'بلین ٹری سونامی' کی نگرانی کیلئے 3 غیر سرکاری تنظیمیں مقرر
قومی احتساب بیورو (نیب) کے سابق چیئرمین نے نیب کے خیبر پختونخوا ڈائریکٹوریٹ کے دورے کے دوران انکشاف کیا تھا کہ بیورو کی جانب سے '10 بلین ٹری سونامی پروگرام‘ کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔
بلین ٹری سونامی کا نفاذ تمام صوبوں بشمول گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں متعلقہ محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات کے ذریعے کیا جارہا ہے، وزارت بلین ٹری سونامی کے نیشنل اسٹریٹجک سپورٹ یونٹ کے نام سے پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ کے ذریعے اس پروگرام کی نگرانی کر رہی ہے۔
وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے مطابق پروگرام کی شفافیت اور روپے کی قدر یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پروگرام آفس کا فنانشل آڈٹ کرایا جائے جو اب تک نہیں کرایا گیا کیونکہ یہ پروگرام 2023 میں مکمل ہونے کا امکان ہے، خصوصی آڈٹ مالی سال 20-2019، 21-2020 اور 22-2021 کے لیے کرایا جائے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان اجمل گوندل اس آڈٹ کو ترجیح دے رہے ہیں اور وہ ذاتی طور پر آڈٹ ٹیموں کی نگرانی کریں گے، اس سال جنوری کے اوائل میں پی ٹی آئی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ بلین ٹری سونامی سے متعلق تھرڈ پارٹی آڈٹ رپورٹ جلد جاری کی جارہی ہے۔
حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس اختراعی پروگرام سے نہ صرف پودوں کی سپلائی میں اضافہ ہوا بلکہ 5 لاکھ ملازمتیں بھی پیدا ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے بلین ٹری سونامی منصوبے کا تمام ریکارڈ طلب کرلیا
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے مطابق 10 بلین منصوبے جیسے بڑے پیمانے کے پراجیکٹ کی بحالی کے اقدامات اقوام متحدہ کی دہائی کی حمایت اور ماحولیاتی نظام کی بحالی کو بڑھانے کے لیے پاکستان کی کوششوں میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
پاکستان خاص طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کا شکار ہے، بلومبرگ کا اندازہ ہے کہ عالمی سطح پر 31 فیصد کے اوسط کے مقابلے میں پاکستان کا صرف 5 فیصد حصہ جنگلات کا احاطہ کرتا ہے جو اسے موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرے کے حامل چھ ممالک میں سے ایک بناتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی رپورٹ کے مطابق پاکستان خاص طور پر مون سون کے بڑھتے ہوئے تغیرات، ہمالیہ کے گلیشیئرز میں کمی اور سیلاب اور خشک سالی سمیت موسم کے بے انتہا اثرات کی وجہ سے خطرات کا شکار ہے، ان اثرات کے سبب خوراک اور پانی کے عدم تحفظ میں اضافہ ہوگا۔
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے پاکستان کی حکومت واقف ہے اور اسے فوری طور پر حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، بلین ٹری سونامی کے علاوہ حکومت 2023 تک اپنے محفوظ علاقوں کو 15 فیصد تک بڑھانے کے لیے پرعزم ہے (2018 میں یہ 12 فیصد تھے اور آج یہ 13 فیصد سے زیادہ ہیں)۔