میری جماعت نے 'سازش' کر کے مجھے وزیراعلیٰ پنجاب بننے سے روکا، شاہ محمود قریشی
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ان کی اپنی جماعت نے ہی 2018 کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر ان کی شکست کو یقینی بنانے کے لیے ان کے خلاف سازش کی تھی تاکہ انہیں وزیراعلیٰ پنجاب بننے سے روکا جا سکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیر خارجہ گزشتہ روز رات گئے پی پی 217 (ملتان) کی سادات کالونی میں ضمنی انتخاب کے سلسلے میں منعقدہ ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر وہ پنجاب میں وزیراعلیٰ ہوتے تو پی ٹی آئی کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں نہ گرائی جاتیں۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی بھرپور حصہ لے گی، شاہ محمود قریشی
انہوں نے کہا اگر میں وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوتا تو میں خطے میں ترقی لے کر آتا، اب عوام کے پاس ایک اور موقع ہے کہ وہ میرے بیٹے مخدوم زادہ زین قریشی کو منتخب کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھ سے پی ٹی آئی کے کچھ عہدیداروں نے یہ بھی کہا کہ مجھے اپنے بیٹے کو پی پی 217 سے امیدوار نہیں کھڑا کرنا چاہیے لیکن میں نے انہیں کہا کہ ہم لوٹوں کے خلاف الیکشن ضرور لڑیں گے۔
پی پی 217 کی سیٹ الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے 25 ارکان کو انحراف کے بعد نااہل قرار دینے کے باعث خالی ہوئی تھی۔
سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 2018 کے عام انتخابات میں ایک قومی اور ایک صوبائی نشست پر الیکشن لڑا تھا اور وہ آزاد امیدوار سلمان نعیم سے ہار گئے تھے جنہوں نے عثمان بزدار کی حکومت بنانے کے لیے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن بعد میں کامیاب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد وہ منحرف ہو گئے تھے۔
مزید پڑھیں: سندھ میں گورنر راج کا کوئی ارادہ نہ تھا اور نہ ہے، شاہ محمود قریشی
سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بھی ٹی وی چینلز سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کے دعوے کی تائید کی اور کہا کہ پی ٹی آئی ارکان نے شاہ محمود قریشی کے خلاف سازش کی اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر ان کے مخالف امیدوار کی مدد کی تھی۔
فواد چوہدری نے 2018 کا الیکشن بھی صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر لڑا تھا اور دونوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔
انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے کے لیے لابنگ بھی کی تھی لیکن پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے انہیں ہدایت کی کہ وہ صوبائی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو کر وفاقی کابینہ میں بطور وزیر اطلاعات کام کریں۔
یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن یادیو کا کیس مسلم لیگ (ن) نے بگاڑا، شاہ محمود قریشی
پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما علیم خان بھی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے عہدے کے ایک ممکنہ امیدوار تھے، انہیں وزیر اعلیٰ بنانے کے بجائے عثمان بزدار کی کابینہ میں بطور سینئر وزیر شامل کیا گیا تھا۔
علیم خان نے بطور صوبائی سینئر وزیر اس عہدے میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور مبینہ طور پر عثمان بزدار کے خلاف لابنگ جاری رکھی۔
بعد ازاں فروری 2019 میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے علیم خان کو بدعنوانی کے ایک کیس میں گرفتار کرلیا تھا اور انہیں 5 ماہ تک حراست میں رکھا تھا۔
تبصرے (1) بند ہیں