حکومت کا روس سے تیل کی خریداری پر غور، آئل کمپنیوں سے تجاویز طلب
وفاقی حکومت نے تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر روس سے تیل کی درآمدات پر غور شروع کردیا ہے اور وزارت توانائی نے خط لکھ کر اس حوالے سے آئل کمپنیوں سے تفصیلات طلب کر لی ہیں۔
وزارت توانائی کے پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے چار پیٹرولیم کمپنیوں کو لکھے گئے خط میں روس سے پیٹرول درآمد کرنے سمیت اس کی مقدار و معیار کے ساتھ ساتھ دیگر امور پر بھی تجاویز طلب کی گئی ہیں۔
مزید پڑھیں: حکومت کا پیٹرول 24.3 اور ڈیزل 59.16 روپے مہنگا کرنے کا اعلان
پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے پاک عرب ریفائنری، نیشنل ریفائنری لمیٹیڈ، پاکستان ریفائنری لمیٹیڈ اور بائیکو پیٹرولیم پاکستان لمیٹیڈ کو خط لکھ کر تجاویز طلب کی گئی ہیں۔
خط میں ان کمپنیوں سے کہا گیا کہ وہ روس سے تیل کی درآمد کے حوالے سے تفصیلی تجزیہ کریں اور حکومت کو تجویز کریں کہ ہر ریفائنری کی ترتیب اور پیداوار کے پیش نظر خام درجات کی تکنیکی امور سے آگاہ کرے کہ یہ مناسب رہے گا یا نہیں۔
ریفائنری کو درکاری مطلوبہ خام تیل کی مقدار اور درجات کے بارے میں آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ مشرق وسطیٰ سے منگوائے جانے والے تیل کے مقابلے میں روس سے تیل کی درآمد پر ٹرانسپورٹیشن اور کرائے کی مد میں کتنی لاگت آئے گی۔
وزارت نے خط میں رقم کی ادائیگی کے طریقہ کار کے ساتھ ساتھ عرب خطے سے موجودہ معاہدوں کی تفصیلات بھی پیش کرنے کی ہدایت کی۔
یہ بھی پڑھیں: سستے داموں تیل خریدنے پر عمران خان کے بھارت کیلئے تعریفی کلمات
واضح رہے کہ عالمی سطح پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے حکومت کی جانب سے گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 100روپے تک کا اضافہ کیا جا چکا ہے جس پر اسے اپوزیشن کی شدید تنقید کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ستائے عوام کے دباؤ کا بھی سامنا ہے۔
حکومت کی جانب سے 27 مئی سے 11 جون کے درمیان پیترولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تین دفعہ بڑا اضافہ کیا گیا جس کے نتیجے میں ڈیزل کی قیمت میں محض 15 دن کے دوران 119روپے کا اضافہ ہوا جبکہ اسی دورانیے میں پیٹرول فی لیٹر 84 روپے سے زائد مہنگا ہوا۔
بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتوں اور اس کے نتیجے میں بڑھنے والی مہنگائی کے سبب مخلوط حکومت کو مرکزی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے اور وہ حکومت سے مستقل سوال کررہی ہے کہ آخر بھارت کی طرح موجودہ حکومت روس سے سستا ایندھن خریدنے کو ترجیح کیوں نہیں دے رہی۔
سابق پی ٹی آئی حکومت کے دعوے کے مطابق روس پاکستان کو 30 فیصد رعایتی نرخوں پر خام تیل دینے کے لیے تیار تھا لیکن موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے سابق وزیر توانائی حماد اظہر کے روس کو لکھے گئے خط کا روسی حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔
تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان روس سے سستا تیل نہ لینے پر موجودہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور اس کے لیے پڑوسی ملک بھارت کی مثال بھی دیتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی حکومت کے روس سے تیل کی خریداری کے معاہدے کا علم نہیں، روسی قونصل جنرل
گزشتہ ماہ انہوں نے بھارت کی خارجہ پالیسی کو آزاد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکا کی زیر قیادت اتحاد ’کواڈ‘ کا کلیدی رکن ہونے کے باوجود روس سے سستے داموں تیل خرید رہا ہے اور اپنے عوام کو ریلیف فراہم کر رہا ہے۔
انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ’ یہی وہ مقصد تھا جسے حکومت آزاد خارجہ پالیسی کی مدد سے حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی‘۔
سابق وزیراعظم اکثر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ان کی حکومت کی روس سے توانائی بالخصوص تیل اور گیس کی خریداری کے لیے بات چیت چل رہی تھی لیکن نئی حکومت نے ’بیرونی طاقتوں‘ کی ایما پر روس سے روابط منسوخ کر کے پاکستان کے عوام پر مہنگائی کا بوجھ مسلط کردیا۔
جب روس سے تیل کی خریداری کے حوالے سے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل سے سوال کیا گیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ اگر روس سے تیل کی پیشکش کی جاتی ہے اور اس طرح کے معاہدے پر کوئی پابندیاں عائد نہیں کی جاتی ہیں تو پاکستان سستی قیمت پر تیل خریدنے کے لیے تیار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روس، چین کو سب سے زیادہ تیل فروخت کرنے والا ملک بن گیا
ان کے خیال میں پاکستانی بینکوں کے لیے روسی تیل خریدنے کے لیے انتظامات کرنا ممکن نہیں اور ساتھ ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ روس نے ویسے بھی پاکستان کو رعایتی نرخ پر ایسی کسی بھی خریداری کی پیشکش نہیں کی ہے۔
گزشتہ ماہ شائع رپورٹ کے مطابق یوکرین پر روس کے حملے کے بعد جہاں ایک طرف یورپی اور مغربی ممالک نے روس سے تیل کی خریداری پر پابندی لگا رکھی ہے وہیں چین اور بھارت نے اس دوران ان سے ریکارڈ تعداد میں تیل کی خریداری کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 24 فروری کو روس کے یوکرین پر حملہ کے بعد بھارت کو ماسکو سے 3کروڑ 40لاکھ بیرل رعایتی روسی تیل موصول ہو چکا ہے اور اسی وجہ سے 2021 میں بھارت کی روس سے کی گئی خریداری کے مقابلے میں رواں سال کل درآمدات کی قدر میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق اسی طرح چین نے مئی میں روس سے خام تیل کی درآمدات میں اضافہ کیا اور روس سعودی عرب کو پیچھے چھوڑ کر چین کو تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔
مزید پڑھیں: یوکرین پر حملے کے بعد بھارت نے روس سے 3کروڑ 40لاکھ بیرل تیل رعایتی نرخ پر لیا، رپورٹ
دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت نے گزشتہ ماہ روس سے تقریباً 84 لاکھ 20 ہزار ٹن تیل درآمد کیا جو کہ گزشتہ سال کی نسبت 55 فیصد اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔