بھارتی حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش اور صحافتی آزادی کی پامالی جاری
نامور فیکٹ چیکنگ ویب سائٹ کے ایڈیٹر کی گرفتاری اور ٹوئٹر اکاؤنٹس کی سینسرشپ کے بعد آزادی صحافت کو دبانے اور انٹرنیٹ پر شیئر کیے جانے والے مواد پر بہت زیادہ نگرانی اور سینسرشپ کی کوششوں کے طور پر کیے جانے والے قدامات پر بھارتی حکومت سخت تنقید کی زد میں آگئی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں نے آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کی بغیر کسی جرم کے من مانی کرتے ہوئے غیر قانونی گرفتاری کی مذمت کی، محمد زبیر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے سخت ناقد رہے ہیں۔
پولیس کی جانب سے پوچھ گچھ کے بعد انہیں پیر کے روز حراست میں لیا گیا تھا جب کہ اس سے قبل دہلی کی ایک عدالت نے انہیں مزید پوچھ گچھ کے لیے 4 روز کے لیے حراست میں رکھنے کا حکم دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے معروف کشمیری صحافی کو گرفتار کرلیا
محمد زبیر نے حال ہی میں نریندر مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک ترجمان کی جانب سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اشتعال انگیز بیانات کی جانب توجہ مبذول کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، ان اشتعال انگیز بیانات نے اسلامی دنیا میں بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے بھارت محمد زبیر کو غلط معلومات کا مقابلہ کرنے اور اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کو روکنے کے لیے اہم کام کرنے پر نشانہ بنا رہا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا بورڈ کے سربراہ آکر پٹیل نے کہا کہ ان کی گرفتاری سے ظاہر ہوتا ہے کہ کہ بھارت میں انسانی حقوق کے محافظوں کو درپیش خطرات بحرانی نکتے پر پہنچ چکے ہیں۔
گرفتار محمد زبیر کے ساتھ مل کر آلٹ نیوز ویب سائٹ چلاتنے والے پرتک سنہا نے کہا کہ انہیں غیر قانونی طور پر بغیر کسی وارننگ کے حراست میں لیا گیا۔
مزید پڑھیں: بھارت: 2021 میں 6 صحافی قتل اور 108 پر حملے کیے گئے
محمد زبیر بی جے پی کے سخت ترین ناقدین میں سے ایک ہیں اور وہ اکثر ہندو گروہوں کی جانب سے کی جانے والی نفرت انگیز تقریروں کی جانب توجہ مبذول کرواتے رہےہیں۔
انہوں نے گزشتہ سالوں کے دوران کئی قانونی مقدمات کا سامنا کیا ہے، ان کے خلاف درج مقدمات کو ان کے حامیوں نے سیاسی طور پر بنائے گئے کیسز قرار دیتے ہوئے انہیں خاموش کرنے کوشش سمجھتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
پولیس نے ان کی گرفتاری کی وجہ محمد زبیر کی ہندو دیوتا کے بارے میں 4 سال پرانی ٹوئٹ کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے خلاف مذہبی گروہوں کی جانب سے شکایت کی گئی تھی۔
لیکن حکومتی ناقدین محمد زبیر کی گرفتاری کو 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک میں آزادی اظہار رائے اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: آسام میں پولیس اور صحافی کا ایک شخص پر تشدد، ویڈیوز وائرل ہونے پر غم و غصہ
بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے سماجی رابطے کی ویب ٹوئٹر جاری اپنے پیغام میں کہا کہ بی جے پی کی نفرت، تعصب اور جھوٹ کو بے نقاب کرنے والا ہر شخص ان کے لیے خطرہ ہے۔
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے بھی محمد زبیر کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔
ٹویٹر سنسر شپ
دوسری جانب اسی طرح کے ایک اقدام کے طور، بھارتی حکومت نے ٹوئٹر کو مقامی طور پر اکاؤنٹس اور درجنوں پوسٹس کو سنسر کرنے کی ہدایت کی، ان پوسٹس میں سے کچھ پیغامات میں ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا جس میں ملک کی گرتی ہوئی انٹرنیٹ آزادیوں کا ذکر کیا گیا تھا جب کہٹوئٹر نے بھی اس طرح کے حکومتی احکامات کی تصدیق کی ہے۔
صحافی رانا ایوب ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں ٹوئٹر کی جانب سے نئی دہلی کی درخواست پر ٹوئٹس روکنے کے حوالے سے نوٹس موصول ہوئے۔
مزید پڑھیں: بھارت: اتر پردیش میں مسلمان پر تشدد، زبردستی جے شری رام کے نعرے لگوائے گئے
اس سلسلے میں واشنگٹن میں موجود انور اقبال مزید کہتے ہیں کہ گزشتہ روز اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے بین الاقوامی برادری، خاص طور پر جی 7 پر زور دیا تھا کہ وہ بھارت سے نئی دہلی کی جانب سے بلاک کیے گئے تمام پاکستانی اکاؤنٹس سمیت معلومات کی رسائی اور فروغ پر اپنی عائد شدہ وسیع پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کریں۔
اپنے ایک بیان میں پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بھارت نے ایران، ترکی، مصر میں پاکستانی سفارت خانوں اور نیویارک میں اقوام متحدہ کے مستقل مشن کے ٹوئٹر ہینڈلز تک رسائی روک دی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ یہ بتائے گئے اکاؤنٹس ان بہت سے دوسرے لوگوں کے علاوہ ہیں جن کے لیے رسائی کو روک دیا گیا ہے۔
اپنے آفیشل پیج پر پوسٹ کردہ ایک ٹوئٹ میں منیر اکرم نے بھارت کی منافقت کے ایک اور مظاہرے پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ کس طرح نئی دہلی نے اس ہفتے کے شروع میں جرمنی میں جی سیون کے سربراہی اجلاس میں ایک بیان پر دستخط کیے کہ وہ آن لائن اور آف لائن اظہار رائے کی آزادی کا تحفظ کرے گا۔