جب عالمی دولت ایک فیصد طبقے کے پاس ہوگی تو دنیا کے مسائل کیسے حل ہوں گے؟
گزشتہ ہفتے افغان صوبے پکتیکا میں آنے والے زلزلے کا شکار گایان کا علاقہ بھی ہوا۔ ایک غیر ملکی صحافی نے اس علاقے کے دورے کے بعد ایک تصویر پوسٹ کی جس میں دکھایا گیا کہ کچھ افغان دھوپ میں پکی ہوئی خوبانیاں لیے کھڑے ہیں۔
اس صحافی نے افغانوں کی مہمان نوازی کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ اس بات پر مصر تھے کہ ہم میڈیا کے لوگ ایک ایک خوبانی اٹھالیں۔ افغانستان میں کئی دہائیوں میں آنے والا بدترین زلزلہ بھی افغانوں کی مہمان نوازی کو کم نہ کرسکا۔ اس زلزلے میں تقریباً ایک ہزار افراد جاں بحق اور 1500 کے قریب زخمی ہوئے۔
یہ صحافی واحد فرد نہیں تھے جنہوں نے اس آفت کے دوران نظر آنے والی انسانیت کو اجاگر کیا۔ سوشل میڈیا اس قسم کی تصاویر سے بھرا پڑا ہے جہاں اطراف کے دیہاتوں کے لوگ متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے امڈے چلے آئے یا پھر سڑکوں پر پھرتے بچے اپنی معمولی آمدن بھی چندہ باکس میں ڈالتے ہوئے نظر آئے۔
ان تصاویر کا مقصد تکالیف کو کم کرنا ہوتا ہے لیکن اس کے برعکس یہ تصاویر آفات کی ہولناکیوں کو رومانوی رنگ دے دیتی ہیں۔ یہ افغانوں کی بہادری میں امید کا جھوٹا احساس جگاتی ہیں لیکن دراصل یہ ان لوگوں کے لیے استعمال ہونے والے نسبتاً بہتر الفاظ ہیں جن کے پاس بس کوشش کرتے رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
مزید پڑھیے: افغانستان کا سیاسی مستقبل کیسا ہوگا؟
اس طرح کی چیزیں ہمیں افغانستان میں تباہی کی شدت کو محسوس کرنے سے روکتی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب افغانستان انسانی اور معاشی تباہی کا سامنا کر رہا ہے، افغانوں کے لیے یہ آفت مزید مشکلات لے آئی ہے۔ زلزلہ متاثرین کو جن اسپتالوں میں لے جایا گیا ان اسپتالوں کو فنڈنگ، آلات اور ادویات کی کمی کا سامنا تھا۔ جو لوگ اس آفت سے بچ گئے ہیں وہ اپنی زندگیاں بہت مشکل حالات میں دوبارہ شروع کریں گے۔ اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال 97 فیصد افغان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں گے جبکہ ملک کی نصف آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔
اس زلزلے کے بعد طالبان نے حکومت کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ تو کردیا ہے، انہوں نے زخمیوں کو شہروں تک پہنچانے کے لیے خصوصی پروازیں بھی چلائیں اور متاثرہ خاندانوں کے لیے معاوضے کا بھی اعلان کیا تاہم مجموعی طور پر ملک کی صورتحال کچھ اچھی نہیں ہے۔ افغانستان میں خواتین کے حقوق کو سلب کیا جارہا ہے، لڑکیوں کے اسکول بند ہیں، میڈیا پر پابندیاں عائد ہیں، سابق حکومت کے عہدے دار اور طالبان کے مخالفین کو لاپتا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے یا پھر قتل کیا جارہا ہے۔ افغانستان میں اقلیتیں بھی خطرات کا شکار ہیں جس کا ثبوت حالیہ دنوں میں کابل کے گردوارے پر ہونے والا حملہ ہے۔
بدقسمتی سے افغانستان ان سخت انسانی اور معاشی حالات کا سامنا کرنے والا واحد ملک نہیں ہے تاہم یہ بدترین صورتحال کا سامنا کرنے والے ممالک میں ضرور شامل ہے۔ اس وقت ہمیں ماحولیاتی تبدیلی اور یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے عالمی سطح پر غذائی قلت کا سامنا ہے۔ تقریباً ایک ارب 60 کروڑ لوگوں کے لیے پیٹ بھر کر کھانا مشکل ہے جبکہ لاکھوں لوگ قحط کا شکار ہیں۔ سومالیہ میں بچے بھوک سے مررہے ہیں۔ موسمی آفات میں گزشتہ 50 برسوں کے دوران 5 گنا اضافہ ہوا ہے جس وجہ سے قحط اور غذائی قلت کی یہ صورتحال دیگر خطوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
ہمیں حقیقت کا درست ادراک نہیں ہے۔ ہم ہر قدرتی یا موسمی آفت کو ایک الگ تھلگ واقعہ سمجھتے ہیں۔ ہم ماحولیاتی بحران کو کُلّی طور پر سمجھنے اور لوگوں کو اس کی فوری نوعیت سمجھانے میں ناکام رہے ہیں۔ حیران کن طور پر عالمی عدم مساوات پر بھی کوئی بات نہیں کی جارہی۔
مزید پڑھیے: موسمیاتی تبدیلی کس طرح پاکستان میں خوراک کا بحران پیدا کرسکتی ہے؟
جس دوران پکتیکا کے لوگ ایک کے بعد ایک آفات کا سامنا کررہے ہیں عالمی دولت دنیا کی صرف ایک فیصد آبادی کے ہاتھوں میں موجود ہے۔ شدید عدم مساوات ان حالات کو جنم دے رہے ہیں کہ اب زلزلے یا اشیا کی رسد میں آنے والی رکاوٹ دنیا کی غریب ترین اور کمزور ترین آبادی کے لیے مہلک ثابت ہوتے ہیں۔ یہ وہ وسیع منظرنامہ ہے جس پر کوئی توجہ نہیں دینا چاہتا۔
پاکستان نے فوری طور پر افغانستان میں زلزلہ زدگان کی مدد شروع کی اور این ڈی ایم اے نے خیمے، کمبل اور ادویات افغانستان روانہ کیں۔ یہ ایک خوش آئند قدم ہے لیکن وہی پاکستانی جو افغانستان میں زلزلہ متاثرین کے لیے دعائیں کررہے ہیں وہ اس ’سپر ٹیکس‘ پر بھی فریاد کررہے ہیں جو ملک کی بڑی صنعتوں پر لگایا گیا ہے۔ ان میں سے اکثر صنعتوں نے حال ہی میں ریکارڈ منافع کمایا ہے۔ اس اقدام نے غم و غصے کو بھڑکا دیا ہے اور حکومت پر معاشی پیداوار کی قیمت پر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
آئی ایم ایف کے بیل آؤٹس کے فوائد پر زور دینے سے دولت کی تقسیم کے ناقابلِ برداشت عالمی نظام پر سے توجہ ہٹائی جاتی ہے۔
مزید پڑھیے: غیر منصفانہ ٹیکس وصولی کا نظام آخر کب تک؟
یہاں مٹھی بھر امیر لوگوں کے مفادات کو سیاست، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور یہاں تک کہ عدلیہ میں موجود مفاد پرست طبقہ یقینی بناتا ہے۔ اس کے برعکس عوام کی بڑی تعداد بے یار و مددگار ہے اور بھوک سے مررہی ہے لیکن ان کی داد رسی کے لیے صرف سوشل میڈیا پر بیانات دیے جارہے ہیں۔
ایسا زیادہ عرصے تک نہیں چل سکتا۔ پکتیکا میں آنے والا زلزلہ اپنے پیچھے جو مایوسی چھوڑ کر گیا ہے اس کا نتیجہ سیاسی عدم استحکام اور بحران کی صورت میں نکلے گا۔ یہاں کوئی اور حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
اگرچہ سپر ٹیکس میں خامیاں ہوسکتی ہیں لیکن ٹیکس عائد کرنے کے بہتر اصول بشمول کمپنیوں کی جانب سے ٹیکس چوری کو روکنا ضروری ہے جس سے غریب ممالک کو ہر سال 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے، اور اگر یہ کرلیا گیا تو صحت، تعلیم اور انفرااسٹرکچر کے لیے رقم کا اجرا ممکن ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد ہی ہمیں آزادی، نظام اور آزاد عدلیہ سے لے کر میڈیا اور سول سوسائٹی تک ان اداروں کی ضرورت کا احساس ہوگا جو عوامی احتساب کو ممکن بناتے ہیں۔ اس بھیانک حال سے گزرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ بنیادی چیزوں کو بہتر بنایا جائے۔
یہ مضمون 27 جون 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں