گیشر برم 2 سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما کی ’کے ٹو مہم‘ شروع
گزشتہ سال پاکستان میں گیشر برم 2 سر کر کے 8 ہزار میٹر سے بلند کسی چوٹی کو سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والی نائلہ کیانی نے اب کے ٹو مہم کا آغاز کردیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نائلہ کیانی کی اس کامیابی کو اس امر نے مزید دلچسپ بنا دیا کہ انہوں نے گزشتہ سال زندگی میں پہلی بار کوئی پہاڑ سر کرنے کی ٹھانی تھی اور بیٹی کی پیدائش کے محض 7 ماہ بعد 8ہزار 35 میٹر بلند گیشر برم پہاڑ سر کرلیا۔
دبئی میں مقیم، بیکنگ کے شعبے سے وابستہ نائلہ کیانی نے بتایا کہ ’میری بیٹی محض ساڑھے 7 ماہ کی تھی جب میں نے گیشر برم 2 سر کیا‘۔
ٹیم بریفنگ کے بعد سکردو کے لیے روانہ ہونے والی نائلہ کیانی کے ہمراہ پاکستانی کوہ پیما سرباز خان اور سہیل سخی بھی ہوں گے جو مرحوم علی رضا سدپارہ کے ساتھ گیشر برم 2 سر کیے جانے کے وقت بھی ان کے ساتھ تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی کوہ پیماؤں کا ایک اور اعزاز، ایورسٹ، چوتھی بلند ترین چوٹی سر کرلی
نائلہ کیانی نے کہا کہ ’گیشر برم 2 سر کرنے والی ٹیم ہی اب کے ٹو سر کرنے جارہی ہے، ہم نے یہ مہم چچا علی رضا سدپارہ کے نام کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘۔
نائلہ کیانی نے علی رضا سدپارہ کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب میں گیشر برم 2 سر کرنے کے بعد بیس کیمپ پہنچی تو یہ علی رضا چاچا ہی تھے جنہوں نے مجھے کہا کہ آپ کے ٹو بھی سر کرسکتی ہیں، مجھے یہ اعتماد انہوں نے ہی دیا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ان کے بارے میں جو چیز مجھے سب سے زیادہ پسند تھی وہ شاندار حس مزاح تھی، ان کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی، مہم کے دوران جب کوئی کٹھن لمحہ آتا تو وہ کوئی لطیفہ سناتے اور ہم سب ہنس پڑتے‘۔
8 ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں میں سے مشکل ترین چوٹی کے ٹو کو سر کرنے کے لیے اپنی تیاری کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ میرے لیے یہ ناقابل یقین حد تک مشکل رہا ہے، میں زچگی کی چھٹیوں کے دوران گیشر برم-2 سر کرنے نکل گئی تھی اور مہم سے واپس آنے کے بعد فوراً کام پر چلی گئی تھی‘۔
مزید پڑھیں: نامور کوہ پیما علی رضا سدپارہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے
اپنی کم عمر بیٹی کے علاوہ نائلہ کیانی ایک 3 سالہ بیٹے کی بھی ماں ہیں اور اس مہم میں ایک ماہ سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے، اس مشکل فیصلے کے حوالے سے سوال پر نائلہ کیانی نے جواب دیا کہ ’ہم یہ سوال مردوں سے نہیں پوچھتے، حتیٰ کہ بیرون ملک بھی لوگوں نے مجھ سے یہ سوال پوچھا کیونکہ ماؤں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کریں چاہے ان کی کل وقتی ملازمت ہو‘۔
انہوں نے بتایا کہ گیشر برم 2 کی مہم پر سرباز خان میرے ہمراہ تھے جبکہ میری بیٹی کی پیدائش کے ایک دن بعد ان کی بھی بیٹی پیدا ہوئی لیکن کسی نے ان سے یہ سوال نہیں پوچھا کہ آپ 14 چوٹیوں کے مشن پر کیسے گئے اور سال کے بیش تر وقت گھر سے دور کیسے رہ لیتے ہیں؟
دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو غیرمعمولی شرح اموات کے باوجود خصوصاً پاکستانی کوہ پیماؤں کے لیے کشش رکھتی ہے، اس حوالے سے بات کرتے ہوئے نائلہ کیانی نے کہا کہ ’یہاں جو سکون ملتا ہے وہ آپ کو ان پہاڑوں میں واپس لاتا رہتا ہے، جب میں نے اپنی پہلی مہم کا منصوبہ بنایا تھا اس وقت میں صرف اپنی جسمانی اور ذہنی طاقت کو جانچنا چاہتی تھی، صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ میں کتنی بلندی پر جا سکتی ہوں‘۔
انہوں نے کہا کہ میں نے باکسنگ سمیت جتنے بھی کھیل کھیلے ہیں ان میں سے کوہ پیمائی آپ کو سب سے زیادہ آزماتی ہے، اس کے علاوہ بلندی سے اس قدر محسور کن نظارے دیکھنا نصیب ہوتے ہیں کہ آپ خود سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیا یہ زمین ہے یا پھر جنت؟