کراچی سے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ’لاپتا‘
کراچی سے تعلق رکھنے والا سوشل میڈیا پر متحرک نوجوان ارسلان خان کلفٹن میں اپنی رہائش گاہ سے مبینہ طور پر لاپتا ہوگیا جبکہ ان کے دوستوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اٹھایا ہے۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ضلع جنوبی کراچی اسد رضا نے مبینہ گرفتاری سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ پولیس نے سماجی کارکن کو گرفتار نہیں کیا۔
مزید پڑھیں: جبری طور پر لاپتا افراد کے نئے کیسز
ایس ایس پی نے کہا کہ ارسلان خان کے اہل خانہ نے تاحال پولیس میں کوئی شکایت درج نہیں کرائی، ارسلان خان کی رہائش گاہ کلفٹن میں واقع ہے جو کہ ضلع جنوبی کے حدود میں آتا ہے۔
ٹوئٹر پر ’اے کے 47‘ کے نام سے پہچانے جانے والے ارسلان خان ماضی میں بطور صحافی جیو سمیت متعدد ٹی وی چینلز میں کام کر چکے ہیں، وہ اس وقت ٹوئٹر پر بہت متحرک ہیں اور ایک سماجی تنظیم ’کراچی بچاؤ تحریک‘ کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل ساؤتھ نے اپنے بیان میں ارسلان خان کی مبینہ گمشدگی پر خدشات کا اظہار کیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بیان میں کہا کہ ہمیں صحافی ارسلان خان کے کراچی میں ان کے گھر سے آج صبح 4 بجے اغوا ہونے پر گہری تشویش ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ پاکستان میں لوگوں کو اپنے پیاروں سے دور کر کے اختلاف رائے پر سزا دینے کے اس گھناؤنے عمل کو ختم کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے نشاندہی کی گئی ہے کہ لاپتا افراد سے متعلق نئی تشکیل دی گئی بین الوزارتی کمیٹی کو اس پر نوٹس لینا چاہیے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اور جو حقیقت میں ہو رہا ہے اس کے درمیان فرق ہے۔
دریں اثنا کراچی بچاؤ تحریک، جو کہ کئی سیاسی اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کا اتحاد ہے، نے بھی اپنے رکن کے ’اغوا‘ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا اور گمشدگی کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی یونیورسٹی خودکش دھماکے کے سلسلے میں گرفتار بلوچ طالب علم رہا
کراچی بچاؤ تحریک کے کنوینر خرم نیئر نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ارسلان ایک رضاکار تھا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے چند اہلکار مبینہ طور پر ارسلان کو کلفٹن میں واقع ان کے اپارٹمنٹ سے لے گئے ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ رکن کے خاندان نے بھی ’ناخوشگوار رویہ‘ کا سامنا کیا، اور دعویٰ کیا کہ ارسلان کو اٹھانے والے افراد نے ارسلان کی بیوی کو بتایا کہ اس کا شوہر ’بہت بولنے لگا ہے‘۔
کراچی بچاؤ تحریک کے نمائندوں کے مطابق ارسلان کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے اور ارسلان کو اپنے ساتھ لے جانے والے افراد مبینہ طور پر اس کا لیپ ٹاپ اور موبائل فون بھی اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
کراچی یونین آف جرنلسٹس نے سوشل میڈیا کارکن ارسلان خان کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں مبینہ گرفتاری کی شدید مذمت کی اور ارسلان کی گرفتاری کو آزادی اظہار رائے کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔
کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدر شاہد اقبال اور جنرل سیکریٹری فہیم صدیقی سمیت مجلس عاملہ کے تمام اراکین کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ارسلان خان ایک سوشل میڈیا کارکن ہیں، جنہیں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب کلفٹن میں واقع ان کی رہائش گاہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار گھر پر چھاپہ مار کر اپنے ہمراہ لے گئے۔
مزید پڑھیں: جامعہ کراچی دھماکا: پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل سے مشتبہ شخص زیر حراست
کراچی یونین آف جرنلسٹس نے ارسلان خان کی اہلیہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ارسلان کو ان کے سوشل میڈیا کارکن ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے اور زور دیتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف، چیف جسٹس آف پاکستان، وزیراعظم پاکستان اور وفاقی وزیر داخلہ سے مطالبہ ہے کہ وہ ارسلان خان کی 'غیر قانونی گرفتاری' کا فوری نوٹس لیں اور انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔
ارسلان خان کی مبینہ گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی رہائی کے لیے، صحافیوں سماجی اور سیاسی کارکنان نے ٹوئٹر پر آواز بلند کی ہے۔
کراچی بچاؤ تحریک نے ٹوئٹر پر بھی ارسلان خان کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔