فارما انڈسٹری کا ادویات کی قیمتوں میں 25 فیصد اضافے کا مطالبہ
دوا ساز صنعت نے حکومت کو اپنے تین مطالبات منظور کرنے کے لیے 30 جون تک کی مہلت دے دی، بصورت دیگر ان کے پاس نقد کی قلت کے سبب صنعت بند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران فارماسوٹیکل مینو فکچرر ایسوسی ایشن ( پی پی ایم اے) کے چیئرمین قاضی منصور نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ خام مال کی درآمدات کی مد میں جمع کیا گیا 40 ارب روپے کا سیلز ٹیس واپس، درآمدات سے 17 فیصد سیلز ٹیکس ختم اور صنعت کو بحران سے بچانے کے لیے ادویات کی قیمت میں 20 سے 25 فیصد اضافہ کیا جائے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ زیادہ سے زیادہ خوردہ قیمت میں 20 فیصد اضافہ کیا جائے۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کی برآمدی صنعتوں کے خام مال پر تمام ٹیکس ختم کرنے کی ہدایت
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پہلے ہی مارکیٹ میں تقریباً 40 ادویات کی کمی ہے، اگر اقدامات نہ کیے گئے تو تناسب خطرناک حد تک بڑھ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت کی جانب سے وعدہ کیا گیا تھا کہ آئی ایم ایف کے دباؤ کے تحت نافذ کیا گیا سیلز ٹیکس 48 گھنٹوں میں ریفنڈ کردیا جائے۔
چیئرمین فارماسوٹیکل ایسوسی ایشن نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ری فنڈ سے متعلق اب تک کوئی لائحہ عمل طے نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے 40 ارب روپے کی بڑی رقم رکی ہوئی ہے۔
مال برداری کے کرایے، بجلی اور ایندھن کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کے سبب خام مال کی قیمت 3 گنا بڑھ گئی ہیں جس نے مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
مزید پڑھیں: وزارت صحت کی ادویات کی قیمتوں میں 10 فیصد تک اضافے کی اجازت
ان کا مزید کہنا تھا کہ ادویات کی صنعت 95 فیصد خام مال درآمد کرتی ہے۔
پی پی ایم اے کے صدر نے یہ تاثر رد کردیا کہ ادویات کا شعبہ غیر متوقع منافع کما رہا ہے اور کہا کہ ایسی بہت سی ادویات ہیں جن کی لاگت ریٹیل قیمتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں ادویات کی قیمت بنگلا دیش اور بھارت کے مقابلے میں تقریباً 70 فیصد کم ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں 13 سال بعد تقریباً 600 ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، لیکن کسی نے ان 400 ادویات کی قیمت میں کمی پر بات نہیں کی۔
سابق پی پی ایم اے چیئرمین قیصر وحید نے کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے کا ذکر کیا اور کہا کہ اگر حالات مزید سنگین ہوتے ہیں تو اس وقت صنعت کسی چیلنج سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: دوا سازوں کا کورونا ویکسین کی تیاری کیلئے لائسنس حاصل کرنے پر زور
پی پی ایم اے کے نمائندہ عثمان شوکت نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل سے ملاقات کی لیکن اس مسئلے سے نمٹا نہیں گیا۔
حالیہ ہفتے میں ہم نےبجٹ پر غور و غوض کے لیے سلیم مانڈوی والا کی زیر قیادت سینیٹ کمیٹی برائے خزانہ سے ملاقات کی تھی۔
پی پی ایم اے نے جنوری 2022 سے فعال ادویات بنانے کے اجزا اور خام مال پر جی ایس ٹی کے نفاذ کے لیے طویل دورانیہ حل کی فراہمی سے متعلق اپنا مؤقف کا اعادہ کیا،جنوری سے کوئی فنڈز نہ ملنے کے سبب مینوفیکچرر کو مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ ری فنڈ کا عمل جاری ہے، صنعت نے جی ایس ٹی ختم کر کے یا ان پُٹ اور آؤٹ پُٹ کو زیرو ریٹڈ کرتے ہوئے طویل المدتی حل پر زور دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ناقص پاکستانی ادویات کی افغانستان میں فروخت
ان کے مطابق شوکت ترین نے کہا تھا کہ اس میں ایسا مواد بھی موجود ہے جو دیگر صنعتوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کا غلط استعمال بھی ہوسکتا ہے۔
جس پر پی پی ایم اے نے جواب دیا کہ متعدد صنعتوں میں استعمال ہونے والے مواد کی منفی فہرست ایف بی آر کو جمع کرائی جا سکتی ہے، ان پر جی ایس ٹی کا نظام لاگو کیا جا سکتا ہے اور ریفنڈز کی کھپت کی بنیاد پر کارروائی کی جا سکتی ہے، وہ خام مال جو صرف دوا سازی میں استعمال ہوتا ہے اسے جی ایس ٹی سے مستثنیٰ ہونا چاہیے‘۔
انہوں نے کہا کہ اس تجویز پر کمیٹی کے تمام اراکین نے اتفاق کیا تھا اور فیصلہ گیا تھا کہ مسائل کے حل کے لیے 4 روز کے دوران یہ فہرست وزارت خزانہ کو جمع کروادی جائے گی۔