خان صاحب، غلط فہمی دور کیجیے کیونکہ خلا تو سب کا پورا ہوجاتا ہے!
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ شخصیات ہی ایم رہی ہیں۔ نظریہ اور سیاسی پروگرام شخصیات کے ساتھ ساتھ سفر کرتا رہا ہے۔ خود قائدِاعظم کی شخصیت حالات، واقعات اور زمینی حقائق پر بہت بھاری بھر کم رہی۔
اگر ہم نظریے پر یقین رکھتے تو محترمہ فاطمہ جناح نہ غدار کے لقب سے نوازی جاتیں اور نہ بنیادی جمہوریتوں کے خالق فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ہاتھوں جھرلو کے نتیجے میں انتخاب ہارتیں۔
ایوب خان کے مقابل شیخ مجیب ایک جبر مسلسل کا شکار رہنے والے معاشرے کی علامت بن گئے اور ذوالفقار علی بھٹو سیاسی نعروں کے ذریعے خوف کی علامت بنتے رہے۔ کیا شیخ مجیب اور بھٹو کے درمیان شخصی رسہ کشی اور حصولِ اقتدار کی جنگ کے علاوہ بھی کچھ تھا تو ابھی تک ہر دو طرف کے عوام اس انتظار میں ہیں۔
بے نظیر بھٹو ضیاالحق کے خلاف نفرت اور جبر کی چکی میں پسی ہوئی ایک نمائندہ شخصیت تھیں مگر نواز شریف کو تصادم کے لیے تیار کیا جارہا تھا۔ وہ لڑائی جو خود نہیں لڑنا چاہتے تھے مگر انہوں نے حالات کو سازگار بنا کر سیاست کے شفاف حوض کو گندا کردیا۔
ہر دو نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور تمام داؤ پیچ خواہ اندرونِ ملک ہوں یا غیر ملکی دوستوں کے ہاتھوں میں سجے ہوں خوب کھیلے۔ خاطر خواہ مثبت نتائج دونوں حاصل نہ کرسکے اور تھک ہار کر از خود اور دوستوں کے اصرار پر دوبارہ معاملات طے کیے۔
مزید پڑھیے: کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے؟
ایسے میں جب میدان میں گرما گرمی نہ ہو تو ڈھول پیٹ کر تماشائیوں کو اکٹھا کرنا کبڈی کے کھیل کا خاصہ ہوا کرتا ہے، مگر اب ڈھول کے متبادل موجود ہیں۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا اسی کا کردار ادا کرتے ہیں اور ڈھولچی کو علم ہی نہیں ہوتا کہ میدان کس کے لیے سج رہا ہے۔
2002ء میں پہلی ڈرم بیٹ سنی گئی۔ تقاضہ تھا کہ مجھے وزیرِ اعظم بنا دیا جائے۔ کئی بار ملاقاتیں کیں اور چند نشستوں پر معاملہ طے کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا مگر پھر بھی بقول چوہدری شجاعت حسین کے سحر بزم کے ذریعے ایک ہی شہری نشست مل سکی۔
یہی حال عمران خان کے ساتھ طاہر القادری کا تھا۔ دونوں نے قومی اسمبلی کے ایوان سے کچھ نہ سیکھنے کا ارادہ کر رکھا تھا جو انہوں نے پورا کیا۔ حالات ایک جیسے تو کبھی نہیں رہتے دن سے رات اور رات سے دن نکلتا ہے۔ وقت کا دھارا چلتا رہا۔ زمانہ معاہدے کے مطابق تبدیل ہوگیا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) 2013ء میں تیسری، چوتھی پوزیشن پر بھی پوری طرح نہ آسکی۔ جہانگیر ترین کے بقول جائزہ لیا گیا تو آنکھیں کُھل گئیں مگر اب تصادم کی تربیت تو عمران خان کی ہورہی تھی گویا لاہور کے کھلاڑی لاہور میں ہی براجمان ہوکر لڑائی کے لیے ڈھول کی تھاپ پر تیاری کررہے تھے۔
مرحوم قاضی حسین احمد نے پاکستان اسلامک فرنٹ بنا کر جو کچھ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی وہ تو حاصل نہ ہوا مگر ان تمام افراد میں کسک باقی تھی۔ یہاں نظریہ اور وقت بھی تھا، ضرورت بھی تھی گویا ڈھول کی تھاپ اور میدان کی گرمی نے دھول اڑانے میں اپنا کردار ادا کیا اور یہ سب سیاسی، غیر سیاسی، تربیت یافتہ، غیر تربیت یافتہ، بااثر، بار موج، مالدار سبھی اس بات کو جان کر صف آرا ہونا شروع ہوئے کہ عمران خان ہی اب ایک آخری امید باقی ہے۔
مزید پڑھیے: وہ عوامل جو عمران خان حکومت کے خاتمے کی وجہ بنے؟
شرمیلا عمران خان حالات کے ہاتھوں اپنی خواہشوں اور دلچسپی رکھنے والوں کے لیے آخری سہارا، چراغ سحری، بجھتے دیے کی آخری لو کا کام کرگیا۔
سیاسی محبت یا نفرت ایک دن میں پیدا نہیں ہوتی۔ نئے زمانے کے دھولچیوں نے شام صبح گیت گانے شروع کیے اور صورتحال یہ پیدا کردی تھی کہ ہر طرف ایک ہی تصویر باقی نظر آتی تھی۔ امیدوار، روایتی سیاستدان، سرمایہ دار تو متحرک ہوئے ہی تھے مگر عدلیہ کا سیاسی کردار بھی نمایاں ہونا شروع ہوا۔ رف پیج آؤٹ پیپر میں تبدیل کردیا گیا۔ ہر نقش و نگار نہایت حسین اور خوشگوار رنگوں سے مزین تھا۔ وسائل کی کوئی کمی نہ تھی، بولی یکطرفہ بولی جارہی تھی اور کوئی وجہ نہ تھی کہ بولی کامیاب نہ ہوتی مگر خدا کا کرنا کچھ اور تھا پھر مذاکرات ہوئے۔ ہر تین طرف ہوئے کہیں ڈوری ٹوٹی تو دوسری طرف بندھ گئی۔
موت اور ریشم کی ڈوری کی گرہ بہت مضبوط نہ رہ سکی۔ حالات سنبھل نہ رہے تھے، معیشت کی خرابی روز بروز بڑھ رہی تھی، قرضوں پر سود دینا محال ہوگیا تھا۔ بے روز گاری میں ہوشربا اضافہ ہورہا تھا۔ مہنگائی کا جن پہلے روز سے ہی بے قابو تھا جبکہ سفارتکاری ناکام ہورہی تھی۔
دوستوں نے منہ پھیرنا شروع کر دیے تھے، ملک دیوالیہ ہونے جار رہا تھا، معاشی خودمختاری کا سودا شروع ہوچکا تھا، دفاعی منصوبے بھی پورے ہوتے نظر نہیں آتے تھے اور پھر تھا کیا بدتمیزی، گالی، جیل، انتقام، نفرت، بے توقیری، بے عزتی، شدید بدانتظامی، بدحالی سیاسی اثر و رسوخ، غرض ایسا کیا تھا جو طوائف الملوکی کی طرف نہیں لے جارہا تھا۔ پھر مذاکرات کا بھی کوئی راستہ کھلا نہ رہنے دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیے: موجودہ سیاسی تصادم میں اصل نقصان کس کا ہے؟
ریاست اپنی زندگی کا سفر ہچکولے کھاتے پورا نہیں کرسکتی۔ سیلاب اور طوفان میں بھی راستہ نکالنا ضروری ہوتا ہے۔ پھر عدم اعتماد کا راستہ ہی باقی بچا تھا۔ اب اپنی پارلیمانی شکست کے بجائے روس کے تیل کا بین بج رہا ہے۔ پارلیمانی طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ اپنے ازلی دشمن سے مذاکرات کرنے کو تیار ہیں، اس کی تعریف کررہے ہیں تو ایوان میں عوامی نمائندوں سے بات کرنا ہی ہوگی۔ ہر، ہر قدم پر، ہر، ہر کام کے لیے بشمول ملک کی سلامتی، خوشحالی، استحکام اور جمہوریت کے لیے۔
اگر ایسا ممکن نہیں اور استعفیٰ دیا ہے تو سبھی اسمبلیوں اور سینیٹ سے بھی دیں۔ تنخواہیں، مراعات، سہولیات کیوں لے رہے ہیں؟ پھر پنجاب اور سندھ میں الیکشن بھی لڑرہے ہیں، تو کیا الگ اسمبلی بنائیں گے؟
ذرا سوچیں! آپ کے بارے میں تاریخ کیا کہے گی؟ خلا تو پورا ہوجائے گا لیکن کیا آپ کی جماعت بھی آپ کے ساتھ کھڑی رہے گی؟ امیدوار انتخاب جیتنے کے لیے الیکشن لڑتا ہے ہارنے کے لیے نہیں۔
خان صاحب، اپنے غصے کو قابو کریں اور صلح جو کا کردار ادا کریں۔ پارلیمانی جمہوریت کے آداب کا لحاظ رکھیں، اپنی ذات اور کرکٹ گراؤنڈ سے باہر آئیں۔ کبڈی میدان کے اندر کھیلی جاتی ہے باہر ڈھول بجتا ہے اور کبھی بھی ڈھول اور ڈھولچی تبدیل ہوسکتا ہے۔
آپ پاپولر ہیں مگر خدائی صرف خدا کے لیے ہے۔ ناگزیر لوگوں سے تاریخ بھری پڑی ہے اور بھول بھلیوں میں گم ہونا آسان اور راستہ نکالنا مشکل کام ہے۔ اپنے 4 سال کا حساب تو آپ کو دینا ہوگا اور اب احتساب کے لیے اسمبلی میں واپس آکر کردار ادا کریں بصورت دیگر تاریخ کے اوراق انتظار کریں گے۔
تبصرے (19) بند ہیں