• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm

بلوچستان کی شکایت پر سندھ پانی کے بہاؤ میں اضافے پر رضامند

شائع June 22, 2022
ملک آئندہ ربیع کے سیزن میں خشک سالی جیسی صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہے— فائل فوٹو: اے پی پی
ملک آئندہ ربیع کے سیزن میں خشک سالی جیسی صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہے— فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: رواں ہفتے ہونے والی موسلا دھار بارش کے باوجود جاری خریف سیزن کے دوران پانی کی شدید قلت کے باعث ملک کے دو بڑے آبی ذخائر منگلا اور تربیلا میں اب تک کا سب سے کم پانی کا ذخیرہ ہونے کی وجہ سے ملک آئندہ ربیع کے سیزن میں خشک سالی جیسی صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملک کے پانی کے منتظم انڈس ریور سسٹم اتھارٹی(ارسا) کو فوڈ سیکیورٹی کے وسیع تر مضمرات کے ساتھ اگلے سیزن تک پانی کے بحران کے پھیلنے کا خدشہ ہے، تو ایسے میں منگل کو وفاقی اور صوبائی وزراء کے اجلاس میں بلوچستان کو سندھ سے چار سے پانچ دن مزید پانی کے بہاؤ کی یقین دہانی کرائی گئی۔

مزید پڑھیں: پانی کے معاملے پر بلوچستان کے تحفظات، ٹیم کا سکھر بیراج کا دورہ

تاہم انہوں نے اس وقت تک زیادہ مددگار ثابت ہونے کے حوالے سے اپنی نااہلی کا اظہار کیا جب گڈو اور سکھر بیراجوں پر دریا کا بہاؤ آج 72ہزار اور 59ہزار کیوسک کے مقابلے میں 2لاکھ اور ڈیڑھ لاکھ کیوبک فٹ فی سیکنڈ (کیوسک) ہو گا۔

ذرائع نے بتایا کہ تربیلا کے مقام پر دریائے سندھ میں بہاؤ یکم جون سے 20 جون کے درمیان اور پچھلے سالوں کے مقابلے میں بہتر تھا لیکن ارسا کے پاس 100 سال سے زائد عرصے کے اعداد و شمار کے مطابق جہلم، چناب اور کابل میں بہاؤ تاریخی طور پر کم رہتا ہے۔

اسی طرح 21 جون کو تربیلا اور منگلا میں ذخیرہ بھی ماضی کے مقابلے میں سب سے کم تھا۔

مجموعی طور پر اس سیزن میں آبپاشی کی قلت 58 فیصد رہی، یہ حالیہ چند دنوں میں تقریباً 28 فیصد تک گر گئی لیکن یہ اس سطح تک نہیں گئی جو ارسا کو کمی نہ ہونے پر صوبوں کے لیے عام آبپاشی کے لیے پانی مختص کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

بارشوں نے کھیتوں پر مثبت اثر ڈالا لیکن ندی کے بہاؤ یا ڈیموں کے کیچمنٹ والے علاقوں پر یہ مثبت اثر نہیں پڑا، حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے میدانی علاقوں اور بلوچستان اور بلوچستان کے کوہ سلیمان جیسے علاقوں، کراچی اور لاہور میں ہونے والی زیادہ تر بارشیں کینال کمانڈ ایریاز میں آبپاشی کے لیے مددگار نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سسٹم میں بہاؤ کم ہونے کی وجہ سے سندھ کے تمام بیراجوں میں پانی کی قلت مزید بڑھ گئی

تاہم، بدقسمتی سے بارشوں کے ساتھ ساتھ منگلا اور تربیلا دونوں ڈیموں کے کیچمنٹ میں بھی حیرت انگیز برف باری ہوئی ہے اور درجہ حرارت میں کمی نے برف پگھلنے کے عمل پر منفی اثر ڈالا ہے۔

سینئر عہدیدار نے کہا کہ سال کے اس وقت (وسط جون) چترال، اسکردو اور بابوسر پاس کے بلند مقام پر واقع علاقوں میں ہونے والی اس برف باری کی مثال نہیں ملتی، اسکردو میں درجہ حرارت 12سے17 ڈگری سینٹی گریڈ پر منڈلا رہا ہے جبکہ برف پگھلنے میں مدد کے لیے 26 ڈگری سے زیادہ کا درجہ حرارت ضروری ہوتا ہے۔

یہ ملک کو ربیع میں خشک سالی جیسی صورت حال کی طرف لے جا رہا ہے اور اگر 48 سے 72 گھنٹوں کے اندر اسکردو جیسی بلندی پر درجہ حرارت میں اضافہ نہیں ہوتا ہے تو پانی کی مجموعی قلت یہاں تک کہ موجودہ خریف سیزن کے دوران تقریباً 50 فیصد ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر مون سون کے دوران خریف میں ڈیم نہیں بھرے تو ربیع میں زیادہ قلت کی وجہ سے ایک غیر یقینی صورتحال درپیش ہو گی، ارسا کا تجزیہ ربیع میں خشک سالی کی طرف جھکاؤ ظاہر کرتا ہے۔

دریں اثنا، آبی وسائل کے وزیر سید خورشید احمد شاہ اور وزیر اقتصادی امور ایاز صادق نے سندھ اور بلوچستان کے نمائندوں سے ملاقات کی تاکہ سندھ ​​کے خلاف بلوچستان کی مختص پانی کا حصہ کم جاری کرنے کی شکایات کا ازالہ کیا جا سکے۔

مزید پڑھیں: آبپاشی کیلئے پانی کی قلت 45 فیصد تک پہنچ گئی، اِرسا نے صوبوں کو خبردار کردیا

وزارت آبی وسائل کے جوائنٹ سیکریٹری نے 18 جون کو سکھر بیراج کے سائٹ وزٹ کے نتائج کے بارے میں اجلاس کو آگاہ کیا اور بتایا کہ سندھ نے تین سے چار دنوں میں پیٹ فیڈر کینال کے بہاؤ کو تقریباً 3700 کیوسک بڑھانے کی کوشش کا وعدہ کیا ہے لیکن دیگر نہروں میں اضافے سے معذوری کا اظہار کیا۔

تاہم سندھ نے گڈو اور سکھر میں پانی کی سطح بالترتیب 2لاکھ اور ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز نہ کرنے پر اُچ اور مانوتھی نہروں میں پانی کی فراہمی اور کیرتھر کینال میں 650 کیوسک سے زیادہ پانی نہ چھوڑنے سے معذوری کا اظہار کیا۔

محکمہ آبپاشی کی طرف سے بتائی گئی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ سندھ سے بلوچستان کو پانی کی کم فراہمی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مختصر، درمیانی اور طویل مدتی اقدامات کیے جائیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024