• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

’سعودی عرب نے سیاسی عدم مداخلت پر 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا‘

شائع June 21, 2022
ہارون شریف نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بحیثیت بی او آئی چیئرمین ذمے داریاں  ادا کیں—فائل فوٹو: ٹوئٹر
ہارون شریف نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بحیثیت بی او آئی چیئرمین ذمے داریاں ادا کیں—فائل فوٹو: ٹوئٹر

بورڈ آف انویسٹمنٹ (بی او آئی) کے سابق چیئرمین اور عمران خان کی کابینہ کے رکن نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، المعروف ایم بی ایس نے پاکستان میں اس شرط پر 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اسے سیاست اور بیوروکریسی میں موجود اشرافیہ سے تحفظ فراہم کیا جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہارون شریف نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 2019 میں ملاقات کے دوران سعودی ولی عہد نے انہیں الگ لے گئے اور کہا کہ سعودی حکومت پاکستان میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

انہوں نے سعودی ولی عہد کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’لیکن جب تک آپ اس سرمایہ کاری کو سیاست اور بیوروکریسی سے تحفظ نہیں دیں گے ایسا نہیں ہو سکتا‘۔

پی ٹی آئی کے دور حکومت کے دوران بحیثیت بی او آئی چیئرمین ذمے داریاں ادا کرنے والے ہارون شریف نے یہ گفتگو اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ’ان لاکنگ پاکستانز اکنامک پوٹینشل‘ کے موضوع پر ہونے والے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کی۔

یہ بھی پڑھیں: وقت آگیا ہے کہ پاک-سعودیہ تعلقات معاشی شراکت داری میں بدلے جائیں، وزیراعظم

2019 کے دورے کے دوران سعودی ولی عہد نے پاکستان کی مشکلات کا شکار معیشت کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

اس منصوبے کے مطابق سعودی حکومت کی جانب پاکستان میں ایک آئل ریفائنری سمیت مختلف انفرا اسٹرکچر قائم کیے جانے تھے لیکن سرمایہ کاری عمل میں اب تک نہیں آئی۔

ہارون شریف نے واضح اور نپے تلے الفاظ میں اس بات کی وضاحت کی کہ کس طرح سے ملک کے ان مشکل معاشی حالت میں صورتحال کو بہتر کیا جا سکتا ہے اور اس مقصد کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران کہا کہ معیشت اس وقت ترقی کرتی ہے جب کہ جی ڈی پی میں سرمایہ کاری کا تناسب بڑھتا ہے، یہ عنصر پاکستان کے معاملے میں نظر نہیں آتا۔

انہوں نے قطر، یو اے ای ، قازقستان اور چین کے سیکڑوں ارب ڈالر مالیت کے خودمختار فنڈز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عالمی معیشت کا مستقبل یورپ سے زیادہ ایشیا میں روشن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: معاشی ترقی نہ کرنے کی بنیادی وجہ 'کرپشن' نہیں ہے، احسن اقبال

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستان کو طویل مدتی مستحکم پالیسی پلان آف ایکشن کی ضرورت ہے، اس پلان آف ایکشن س میں سیاسی حالات و معاملات کی وجہ سے کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔

وفاقی وزیر مزید نے کہا کہ ملک میں کوئی بھی سرمایہ کاری اس وقت تک نہیں لائی جا سکتی جب تک ہم اپنے ملک کے اندرونی معاملات کو ٹھیک نہ کریں اور اس مقصد کے حصول کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کی حمایت کے ساتھ بننے والی مستقل پالیسی کی ضرورت ہے۔

احسن اقبال نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاک۔چین اقتصادی راہداری آج تک ٹیک آف نہیں کر سکی جس کی مبینہ وجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام، امن و امان کی غیر اطمینان بخش صورتحال اور طاقت کے مختلف ایوانوں کے درمیان اعتماد کا بحران ہے۔

وزیر منصوبہ بندی نےاپنی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے 23-2022 کے مالی بجٹ کو ڈراؤنا خواب قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاستی معاملات کو چلانے کے ساتھ ترقیاتی اخراجات کے لیے بمشکل ہی کچھ فنڈز تھے۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں روزمرہ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بھی قرض لینے کی ضرورت ہے اور یہ صورتحال ملکی ترقی کے لیے نقصان دہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، چیئرمین سعودی-پاک بزنس کونسل

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بمشکل 15 ارب ڈالر ہے جب کہ مسابقتی معیشتوں کے لیے ایشیائی مارکیٹوں میں پیسے کی ریل پیل ہے۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سینٹر فار ایرو اسپیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عثمان چوہان کا کہنا تھا کہ صرف 10 فیصد ٹیکس وصولی کے ساتھ مالی استحکام پاکستان کے لیے ہمیشہ چیلنج ہی رہے گا۔

اس تقریب کے دوران لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) سے تعلق رکھنے والی ماہا رحمٰن نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کبھی جنوبی ایشیا میں فی کس سب سے زیادہ جی ڈی پی رکھنے والا ملک پاکستان 4 دہائیوں کے دوران اب اس درجہ بندی میں سب سے نیچے چلا گیا ہے۔

اس موقع پر بات کرتے ہوئے لمز کے ایڈجنکٹ پروفیسر ڈاکٹر اکرام الحق نے پاکستان میں ٹیکس سسٹم میں موجود خامیوں اور غلطیوں نشاندہی کی۔

علاوہ ازیں ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد سلیری نے ملک کی معیشت کی بہتری کے لیے اکنامک سیکیورٹی کونسل کی تشکیل پر زور دیا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024