• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

آصف زرداری اگلی حکومت بنانے کیلئے پُرامید

شائع June 19, 2022
شریک چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم پنجاب میں اپنی پارٹی کو مضبوط کریں گے — فائل فوٹو: ڈان نیوز
شریک چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم پنجاب میں اپنی پارٹی کو مضبوط کریں گے — فائل فوٹو: ڈان نیوز

سابق صدر و پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے دعویٰ کیا ہے کہ عام انتخابات 2023 میں کامیابی کے بعد آئندہ وفاقی حکومت ان کی جماعت کی ہوگی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بلاول ہاؤس لاہور میں پارٹی کے عہدیداران اور کارکنان سے خطاب میں سابق صدر کا کہنا تھا کہ ’مرکز میں آئندہ حکومت پیپلز پارٹی کی ہوگی‘۔

انہوں نے کہا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر مجھے دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو میں پاکستان میں 110 درجے کارکردگی کا مظاہرہ کروں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس ملک کو درپیش تمام چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت موجود ہے۔

مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی کے پاس ملک کی ترقی کیلئے ماسٹر پلان ہے، زرداری

پنجاب میں پارٹی کی سیاست کے حوالے سے آصف زرداری نے اس تاثر کو ختم کیا کہ گلگت بلتستان اور پنجاب سے پیپلز پارٹی ختم ہوچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات سچ نہیں ہے، پیپلز پارٹی کو ’پاکستان کی بقا‘ کے لیے اپنی سیاست کی قربانی دینی پڑی، میں پنجاب میں بذاتِ خود پارٹی کے معاملات دیکھ رہا ہوں اور یہاں پارٹی کی بحالی یقینی بناؤں گا۔

آصف علی زرداری نے دعویٰ کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط وفاقی اور پنجاب میں صوبائی حکومت کی 9 اتحادی جماعتوں میں سے ایک ہے، یہ ملک کو معاشی اور سیاسی بحران سے نکالنے میں مدد کرے گی۔

تاہم انہوں نے پنجاب میں اگلے ماہ ہونے والے ضمنی انتخابات کے لیے معاہدے کے برعکس مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اگلے عام انتخابات لڑنے کا ذکر نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: عمران نیازی جس نہج پر جارہا ہے وہ ملک کو پھر دولخت کرنے کی سازش لگتی ہے، آصف زرداری

انہوں نے کہا کہ ہم پنجاب میں اپنی پارٹی کو مضبوط کریں گے اور صوبے میں ہمارا منصفانہ حصہ یقینی بنائیں گے۔

’ایک زرداری سب پہ بھری‘ کے نعروں کی گونج میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے مزید کہا کہ وہ پارٹی کارکنوں کا احترام کرتے ہیں اور مستقبل کے کسی بھی فیصلے میں ان سے مشاورت کریں گے۔

انہوں نے اعلان کیا کہ ’کارکنوں کے لیے بحریہ ٹاؤن تک پہنچنا بہت مشکل ہے، کیونکہ یہ مرکزی شہر سے بہت دور ہے، اس لیے میں نے ان کے ساتھ بات چیت کو برقرار رکھنے کے لیے گلبرگ (شہر کے مرکز) میں مکان لینے کا فیصلہ کیا ہے‘۔

آصف زرداری نے سابق وزیر اعظم عمران خان پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’انوکھے لاڈلے‘ کی پالیسیاں ملک میں قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کا باعث بنی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے سابق صدر نے کہا کہ ’وہ (شریف) ہماری بات صرف اس وقت سنتے ہیں جب انہیں ہماری ضرورت ہو‘۔

ملاقات میں اسلم گل، فیصل میر، ثمینہ گھرکی، عزیز الرحمٰن چن، تنویر اشرف کائرہ اور فاروق سعید سمیت پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت بھی موجود تھی جہاں آصف زرداری نے اشرف بارا کو پارٹی میں خوش آمدید کہا۔

مزید پڑھیں: انتخابی اصلاحات کے بعد ہی عام انتخابات ہوں گے، آصف علی زرداری

سابق صدر بعد ازاں نوابشاہ روانہ ہوئے اور اگلے ہفتے ان کی واپسی متوقع ہے جب وہ پنجاب میں اپنی پارٹی کے حصے کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔

قبل ازیں پیپلز پارٹی کے پنجاب چیپٹر نے آصف زرداری سے شکایت کی تھی کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز صوبے میں اپنے قانون سازوں کو ان کا 'متفقہ حصہ' دینے سے گریزاں ہیں۔

پیپلز پارٹی کی پنجاب اسمبلی میں 7 نشستیں ہیں اور مبینہ طور پر شریفوں نے انہیں 4 وزارتوں اور دو مشیروں کا وعدہ کیا تھا۔

پیپلز پارٹی خزانہ، مواصلات اور ورکس کے محکموں میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کے حلقوں کا خیال ہے کہ ایسی اہم وزارتیں پارٹی کے اندر ہی رہنی چاہئیں۔

حمزہ شہباز کی موجودہ 8 رکنی کابینہ میں پیپلز پارٹی کے دو اراکین ہیں تاہم وہ محکموں کی تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے اجلاسوں میں غیر فعال رہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: حکومت کی چھٹی کر کے ہم سے بات کرو، پھر ہم سنبھالیں، آصف زرداری

دو ہفتے قبل کابینہ میں ان کی شمولیت کے باوجود تمام اراکین کو قلمدان تفویض نہیں کیے گئے ہیں، مسلم لیگ (ن) کابینہ میں توسیع کے حوالے سے فیصلہ کن نہیں دکھائی دے رہی۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اگلے ماہ پنجاب کی 20 صوبائی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف مشترکہ طور پر الیکشن لڑنے پر اتفاق کیا ہے۔

تاہم پارٹیوں کے درمیان نظریاتی اختلافات کی وجہ سے ان کے کارکنان ابھی تک میدان میں اترتے نہ ہی ان حلقوں میں اپنے مشترکہ امیدواروں کے لیے انتخابی مہم چلاتے نظر آئے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کے 25 قانون سازوں کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں انحراف پر ڈی سیٹ کرنے کے بعد حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی میں اکثریت کھو بیٹھے تھے، جس کے بعد وہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی کامیابی کے لیے بے چین ہیں تاکہ اپنے عہدے کو برقرار رکھ سکیں۔

مسلم لیگ (ن) نے عمران خان سے الگ ہونے کی ’قربانی‘ کے عوض پی ٹی آئی کے 20 منحرف افراد میں سے بیشتر کو ٹکٹ دیے ہیں۔

پارٹی کے ایک اندرونی نے ڈان کو بتایا کہ حمزہ شہباز نے اپنی کزن مریم نواز سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ ان امیدواروں کے لیے مہم چلائیں تاکہ وہ اسمبلی میں واپس آسکیں۔

خیال رہے پی ٹی آئی انہیں ٹرن کوٹ کہتی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024