آئی ایم ایف سے معاہدے کی پاسداری نہ کی تو پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا، مریم نواز
نائب صدر مسلم لیگ (ن) مریم نواز نے کہا ہے کہ گزشتہ حکومت کے آئی ایم ایف سے معاہدے کی پاسداری کرنا ہماری مجبوری ہے ورنہ خدشہ ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان موجودہ حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھا کر گئے ہیں، شہباز شریف حکومت نے اپنی طرف سے پیٹرول کی قیمت میں ایک روپیہ بھی اضافہ نہیں کیا اور نہ ایک روپیہ اضافی ٹیکس عوام پر نہیں لگایا۔
انہوں نے کہا کہ یہ وہی جولائی 2019 کے معاہدے کے ثمرات ہیں جو عمران خان نے آئی ایم ایف سے کیا جس کے تحت معیشت کی بربادی کے دستخط کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان لانگ مارچ حکومت نہیں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کر رہا ہے، مریم نواز
مریم نواز نے کہا کہ آج حکومت پاکستان کو جو مشکل فیصلے لینے پڑ رہے ہیں ان کی وجہ عمران خان حکومت کے اقدامات ہیں، شہباز شریف بطور وزیر اعظم آئی ایم ایف کے اس معاہدے پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے اس معاہدے کے تحت نہ صرف پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرنی تھی بلکہ سیلز ٹیکس بھی لگانا تھا جس کے مطابق آج پیٹرول کی قیمت 300 روپے فی لیٹر ہونی چاہیے تھی، یہ ہے وہ جال جو وہ بچھا کر گئے ہیں جس کا اعتراف خود شیخ رشید صاحب نے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری یہ مجبوری ہے کہ اگر اہم اس معاہدے کی پاسداری نہیں کرتے تو پاکستان خدانخواستہ دیوالیہ ہوجائے گا۔
’ڈی جی آئی ایس پی آر، عمران خان کو خوش کرنے کیلئے جھوٹ کو سچ نہیں بناسکتے‘
ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان سے متعلق سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ سازش ہوئی یا مداخلت ہوئی، عمران خان یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سیاسی معاملے ہے ڈی جی آئی ایس پی آر کو اس میں بولنے کی ضرورت نہیں، عمران خان یہ بتائیں کہ اگر یہ سیاسی معاملہ تھا تو اسے قومی سلامتی کمیٹی کیوں لے کر گئے؟
انہوں نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے جو بیان دیا ہے وہ انفرادی سطح پر نہیں بلکہ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیز کے نمائندے کے طور پر کی ہے، صرف عمران خان کو خوش کرنے کے لیے وہ جھوٹ کو سچ بنا کر نہیں پیش کر سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب مزید کسی کو وضاحت دینے کی ضرورت نہیں، عمران خان بار بار جھوٹے ثابت ہوچکے ہیں۔
مزید پڑھیں: آپ چوری کے مرتکب ہوئے، اب حساب کا وقت آن پہنچا ہے، مریم نواز کا وزیراعظم کو جواب
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے کہا کہ پرویز مشرف سے متعلق نواز شریف کا ٹوئٹ خالصتاً انسانی بنیادوں پر تھا، انہوں نے ہمارے خاندان پر ظلم کے پہاڑ توڑے لیکن نواز شریف نے بڑے دل کا مظاہرہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ جب بینظیر بھٹو شہید ہوئیں تو سب سے پہلے نواز شریف ہسپتال پہنچے، جب عمران خان کنٹینر سے گر کر زخمی ہوئے تب بھی نواز شریف سب سے پہلے اپنی انتخابی مہم منسوخ کرکے ان کی عیادت کے لیے ہسپتال پہنچے، نواز شریف انتقامی کارروائی پر یقین نہیں رکھتے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اور ان کی جعلی جماعت کے لیے اکیلی کافی ہوں، عمران خان ایک ماہ رانا ثنااللہ سے ڈر کر پشاور کے بنکر میں چھپے رہے، لانگ مارچ کی کال کے لیے لیڈ کرنا پڑتا ہے۔
’احتجاج کے نام پر فساد کی کال دینے والے کو ریاست پوری قوت سے روکے گی‘
مریم نواز نے کہا کہ لوگوں کے بچوں کو ریاست کے آگے چھوڑ کر انقلاب نہیں آتے، اگر کوئی احتجاج کے نام پر فتنہ فساد کی کال دے گا تو ریاست اسے پوری قوت سے روکے گی۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف ایک کے بعد ایک کرپشن کا اسکینڈل سامنے آرہا ہے، انہوں نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے ڈاکے ڈالے لیکن یہ باتیں چھپیں گی نہیں، ان پر کیسز بنیں گے اور بننے چاہئیں۔
یہ بھی پڑھیں: اداروں کو گندی سیاست میں گھسیٹنے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے، مریم نواز
ان کا کہنا تھا کہ انتخابات اپنے وقت پر ہونے چاہیے اور اپنے وقت پر ہی ہوں گے، حکومت کو وقت چاہیے کہ سخت فیصلوں کے بعد ملک کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات اٹھا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) حکومت کو کسی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں، عمران خان حکومت کو بیساکھیاں ملیں اور جیسے ہی وہ بیساکھیاں ہٹیں تو ان کی حکومت دھڑام سے گر گئی۔
’بلوچستان میرے دل کا حصہ ہے‘
رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ لاپتا افراد کے لیے احتجاج کرنے والے بلوچ مظاہرین پر تشدد کیا جانا انتہائی ظلم اور زیادتی ہے جس کی میں مذمت کرتی ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: سلیکٹرز آئندہ پاکستان کے ساتھ ایسا کام نہ کرو، مریم نواز
انہوں نے کہا کہ میں بلوچ طلبہ کے ساتھ ہوں اور ان کے حق کے لیے آواز بھی اٹھاؤں گی، تشدد کا نشانہ بننے والے بلوچ مظاہرین سے ضرور رابطہ کروں گی اور ان کی آواز بنوں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان، پاکستان کا بھی حصہ ہے اور میرے دل کا بھی حصہ ہے۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز، کیپٹن صفدر کی اپیلوں پر سماعت
قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیلوں پر سماعت ہوئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے اپیلوں پر سماعت کی۔
مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی جانب سے امجد پرویز عدالت پیش ہوئے جبکہ نیب کی جانب سے اسپیشل پراسیکیوٹر عثمان غنی چیمہ اور ڈپٹی پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی عدالت پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز میں امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب کا کیس ہے کہ پراپرٹیز کا اصل مالک نواز شریف ہے، نواز شریف نے یہ پراپرٹی اپنے زیر کفالت لوگوں کے نام پر بنائی، نیب نے ضمنی ریفرنس میں کہا کہ نواز شریف نے یہ پراپرٹی حسین نواز کے نام ظاہر کیں، نیب کا مؤقف ہے کہ مریم نواز کو اس پراپرٹی کا ٹرسٹی بنایا گیا لیکن ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس میں کب کیا ہوا؟
انہوں نے کہا کہ مریم نواز پر الزام ہے کہ انہوں نے جرم میں نواز شریف کی اعانت کی، نیب نے نواز شریف کے علاوہ دیگر تمام ملزمان کو شریک جرم قرار دیا، ضمنی ریفرنس میں نیب کا مؤقف عبوری ریفرنس سے مختلف تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ضمنی ریفرنس دائر ہونے کے بعد ہم نے اعتراض اٹھایا کہ ضمنی ریفرنس دائر ہونے کے بعد دوبارہ فرد جرم عائد کی جائے، ہماری استدعا نہیں مانی گئی اور اسی فرد جرم پر کیس چلایا گیا، نیب نے کنفیوژ اور مکس چارج فریم کیا۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جو چارج ہم نے پڑھا اس میں ٹرسٹ ڈیڈ کا تو کوئی ذکر نہیں ہے۔
وکیل مریم نواز امجد پرویز نے جواب دیا کہ نہیں، جو چارج جمع ہے اس میں ٹرسٹ ڈیڈ کا ذکر کیا گیا ہے، ریفرنس سے لے کر چارج فریم تک تفتیش کو مس لیڈ کیا گیا، سپریم کورٹ نے سوالات اٹھائے تھے اور اس پر ہدایت دی تھی۔
مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نیب نے مریم نواز کی ضمانت منسوخی کیلئے درخواست دائر کردی
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ جس وقت کی آپ بات کر رہے ہیں اس وقت تو تفتیش ہی نہیں ہوئی تھی۔
وکیل مریم نواز نے کہا کہ سربراہ پاناما جے آئی ٹی واجد ضیا سے پوچھوں گا کہ میرے خلاف کسی گواہ کا 164 کا بیان تھا، مجھے صرف زبانی باتوں پر شامل تفتیش کیا گیا، جے آئی ٹی نے مریم نواز کو طلب کیا اور ٹرسٹ ڈیڈ ساتھ لانے کا کہا، واجد ضیا پر جرح میں پوچھا کہ کیا آپ کے پاس مریم نواز کے خلاف شواہد موجود تھے جو آپ نے انہیں طلب کیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اگر ٹرسٹ ڈیڈ موجود تھی تو مریم نواز کو اس سے کنفرنٹ کرانے کے لیے طلب کیا گیا ہوگا۔
امجد پرویز نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے معاملے پر مریم نواز کی کردار کشی مہم بھی چلائی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کی سزا کے خلاف اپیلیں سماعت کیلئے مقرر
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ مریم نواز اس ٹرسٹ ڈیڈ کو تسلیم کرتی ہیں؟ اس پر امجد پرویز نے جواب دیا کہ جی، مریم نواز ٹرسٹ ڈیڈ کو تسلیم کرتی ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ اس ٹرسٹ ڈیڈ کا مرکزی ملزم کو کیا فائدہ ہوگا؟ کیا نواز شریف نے اپنے دفاع کے بیان میں ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق کوئی بیان دیا؟
امجد پرویز نے جواب دیا کہ نواز شریف سے 130 سوال کیے گئے تھے میں ان کو اس طرح دیکھ نہیں سکا، میاں نواز شریف کا پہلے دن سے مؤقف رہا کہ میرے بچے کبھی میری زیر کفالت نہیں رہے، نواز شریف کے بھائیوں کے بچے بھی کبھی اپنے والدین کے زیر کفالت نہیں رہے، نواز شریف کا مؤقف ہے کہ جب تک میرے والد حیات تھے انہوں نے میرے بچوں کا جیب خرچ بھی لگا رکھا تھا، یہ حقیقت ہے بہت سی کمپنیوں میں نواز شریف شیئر ہولڈر بھی نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیب کے مطابق وقوعہ 1993 کا ہے، مریم نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ 2006 کی ہے، قتل میں شامل ہونا الگ بات لاش ٹھکانے لگانا الگ بات ہے، 1993 میں ہوئے جرم میں اعانت 2006 میں کیسے کی جاسکتی ہے؟ فئیر ٹرائل جیسی چیزیں انسان نے تہذیب سے سیکھی ہیں، اللہ نے تو آدم کی تخلیق کے وقت شیطان کو بھی حق سماعت دیا۔
مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: مریم نواز کے وکیل کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کیا آپ ٹرسٹ ڈیڈ کے ساتھ کھڑے ہیں؟ آپ اس دستاویز پر جا کر ثبوت خود پر لے رہے ہیں؟ یا آپ اسی دستاویز سے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کیس عدم شواہد کا ہے؟
امجد پرویز نے جواب دیا کہ اسی دستاویز سے دکھاؤں گا نیب ثبوت منتقل کرنے میں ناکام رہا، نیب کہتا ہے کہ ایک دستاویز نے 13 سال پہلے ہونے والے ایک جرم میں معاونت کی، نیب نے 13 سال بعد پیدا ہونے والے بچے پر قتل میں معاونت کا الزام لگایا ہے، مریم نواز کو سزا صرف ٹرسٹ ڈیڈ کی بنیاد پر دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ مریم نواز کو سزا ایک نام نہاد ماہر کی رپورٹ کی بنیاد پر دی گئی، ڈی این اے ٹیسٹ سب سے مستند ٹیسٹ ہوتا ہے، باہر کے ممالک جو ہم سے سائنس اور آرٹس میں بہت آگے ہیں وہاں ڈی این اے کی بنیاد پر سزا نہیں دی جاتی، فوجداری کیس میں محض ایک شہادت کی بنیاد پر سزا نہیں دی جاتی، اس ماہر نے کوئی حوالہ دیے بغیر کیلبری فونٹ کو جعلی قرار دیدیا، فوجداری تاریخ میں بنائی جانے والی یہ سب سے بااختیار جے آئی ٹی تھی، یہ فونٹ کسی نے بنایا ہوگا بیچا ہوگا اس کی شہادت لاتے، رابرٹ ریڈلے مانتا ہے کہ 2005 میں کیلبری فونٹ موجود تھا اور میں نے خود ڈاؤن لوڈ کیا، اس نے کہا کہ 2005 میں صرف کمپیوٹر ماہر اس فونٹ کو استعمال کرتے تھے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیلبری فونٹ کو جعلی قرار دینے کی واحد شہادت رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ تھی؟ امجد پرویز نے جواب دیا کہ جی بالکل، صرف رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: فیصلہ کالعدم قرار دینے کی مریم نواز کی درخواست سماعت کیلئے مقرر
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے تفتیشی افسر سے پوچھا تھا کہ کیا اس ٹرسٹ ڈیڈ کے ذریعے مریم نواز نے کوئی فائدہ لیا ہو؟
امجد پرویز نے جواب دیا کہ سوال اس طرح نہیں بلکہ یہ پوچھا تھا کہ کیا مریم نواز نے کبھی پراپرٹی کا کرایہ لیا، ٹرسٹ ڈیڈ میں لکھا تھا کہ حسین نواز کو کچھ ہو جاتا ہے تو مریم نواز پراپرٹی کو دیکھیں گی، جب تک حسین نواز زندہ ہیں وہ خود دیکھیں گے، وہ ٹرسٹ ڈیڈ محض چند ماہ کیلئے رہی۔
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ رابرٹ ریڈلے کی تعلیمی قابلیت کیا ہے؟ امجد پرویز نے جواب دیا کہ رابرٹ ریڈلے فونٹ ایکسپرٹ ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے تفتیشی سے ایسا کوئی سوال پوچھا کہ بینفیشری کو کیا فائدہ ہے؟ امجد پرویز نے جواب دیا کہ ہم نے تو پہلے کہا تھا کہ جب تک حسین نواز زندہ ہے ملکیت ان ہی کے پاس ہے، یہ پراپرٹی منروا لمیٹڈ کمپنی کے نام سے رجسٹرڈ ہے، اس پراپرٹی کا ایک شئیر سرٹیفکیٹ نیسکول اینڈ ایک نیلسن کمپنی کے ہیں، نیب نے برٹش ورجن آئرلینڈ کے ان کمپنیوں میں کسی کو شامل تفتیش نہیں کیا۔
مزید پڑھیں: ایون فیلڈ سزا معطلی کیس: کیوں نہ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم کردیں، چیف جسٹس
عدالت نے کہا کہ کمپنیوں کی شامل تفتیش کو آپ چھوڑیں، مریم نواز کی حد تک رہیں، امجد پرویز نے کہا کہ مریم نواز کبھی پبلک آفس ہولڈر رہی ہی نہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا پبلک آفس ہولڈر کو نان پبلک آفس ہولڈر کے ساتھ شامل تفتیش نہیں کرسکتے؟
امجد پرویز نے کہا کہ ریفرنس میں کہتے ہیں کہ اصل مالک نواز شریف ہے جبکہ فیصلے میں مجھے کہا جارہا ہے۔
دوران سماعت مریم نواز کے وکیل عرفان قادر نے کمرہ عدالت میں موجود ایک یوٹیوبر کی جانب سے مریم نواز کے کمرہ عدالت میں تسبیح کرنے سے متعلق ٹوئٹ پر عدالت کی توجہ مبذول کروائی۔
یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس فیصلہ: کیپٹن (ر) صفدر کا نام بلیک لسٹ میں شامل
عرفان قادر نے کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں کے ٹوئٹس کے بارے میں عدالت سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کچھ دوست موجود ہیں، انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ مریم نواز تسبیح پڑھ کر عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے ڈیکورم کا تقاضا ہے کہ دوران سماعت ٹوئٹس کرنے سے احتیاط برتی جائے۔
امجد پرویز نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مجھے سزا بنیفیشری ہونے پر نہیں بلکہ فوکس کرکے کی، جعلی دستاویزات پر نہ وقار احمد اور نہ ہی جرمی فری مین کو شامل تفتیش کیا گیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ جعلی دستاویزات جمع کرتے تو آپ بھی ملزم ہوں گے۔
امجد پرویز نے کہا کہ واجد ضیا نے اپنے کزن کی ذمہ داری لگائی کہ لندن جاکر جرمی فری مین سے خط کا پوچھے، اس دستاویز کو پراسیکوشن میں شواہد کے طور پر پیش کیا گیا۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ جرمی فری مین کو اگر گواہ نہیں بنایا تو اس کا تو فائدہ پہنچتا ہے۔
امجد پرویز نے کہا کہ کیبلری فونٹ 2005 میں موجود تھا اور انہوں نے خود استعمال کیا تو کوئی اور کیسے استعمال نہیں کرسکتا تھا۔
مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس میں شریف خاندان کو ہونےوالی متوقع سزائیں
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہتے ہیں رابرٹ ریڈلے مین ایماندار شخص ہے؟
امجد پرویز نے کہا کہ کیلبری فونٹ کی وجہ سے 6 برسوں سے میری کردار کشی کی گئی، واجد ضیا نے اپنے برطانیہ میں اپنے کزن کی فرم کی خدمات لیں، واجد ضیا کے کزن نے فرانزک ایکسپرٹ رابرٹ ریڈلے کی خدمات لیں، رابرٹ ریڈلے کی وجہ سے مریم نواز آج تک کردار کشی مہم برداشت کر رہی ہیں، بیرون ملک سے فرانزک ایکسپرٹ اس لیے ہائر کیا گیا کہ بعد میں جرح نہ ہو سکے۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں بڑے بڑے ماہر بیٹھے ہوئے ہیں۔
امجد پرویز نے کہا کہ واجد ضیا نے اپنے خالہ یا پھپھی زاد کزن سے 2 کام لیے، ایک تو فرانزک اور دوسرا اخبار اور فوٹو کاپیز کی بنیاد پر ایک رائے لکھ کر لی گئی۔
بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 23 جون تک کے لئے ملتوی کردی۔