• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

’قوم نے قدم نہ اٹھایا تو پاکستان کا کوئی وزیراعظم آزاد خارجہ پالیسی نہیں چلا سکے گا‘

شائع June 16, 2022
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اس ملک کو اس دلدل سے نکالنے کا واحد حل صاف و شفاف انتخابات ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اس ملک کو اس دلدل سے نکالنے کا واحد حل صاف و شفاف انتخابات ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ خارجہ پالیسی ملک کے لوگوں کے مفادات کے لیے ہوتی ہے، بھارت کی آزاد خارجہ پالیسی ہے وہ کسی سے ہدایات نہیں لیتا، اگر آج قوم نے قدم نہیں اٹھایا تو پاکستان کا کوئی وزیر اعظم آزاد خارجہ پالیسی نہیں چلا سکے گا۔

اسلام آباد میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے بانیان وکیل تھے اور آزادی پاکستان کی تحریک میں وکلا کا بڑا کردار تھا، آج جو پاکستان کی حقیقی آزادی کی تحریک ہے اس میں آپ کا سب سے بڑا کردار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے کہتے ہیں کہ مجھے تحریک عدم اعتماد کو قبول کر لینا چاہیے تھا، میں آپ کے سامنے حقائق پیش کرتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ کیا مجھے ایسا کرنا چاہیے تھا۔

مزید پڑھیں: درست فیصلے نہ کیے تو فوج تباہ، ملک 3 ٹکڑے ہوجائے گا، عمران خان

تحریک عدم اعتماد پر بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے دہرایا کہ امریکی سیکریٹری خارجہ برائے جنوبی ایشیا کی پاکستان کے سفیر سے واشنگٹن میں ملاقات ہوئی، انہوں نے پاکستان کے سفیر کو کہا کہ عمران خان روس کیوں گئے تھے، یہ عمران خان کا اپنا اقدام تھا اور امریکا اس پر بہت ناراض ہے۔

سابق وزیر اعظم نے بتایا کہ انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان کو نہیں ہٹایا تو پاکستان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت تک عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں پیش نہیں کی گئی تھی، 7 مارچ کو یہ ملاقات ہوئی، 8 مارچ کو اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی اور ایک دم ہمارے اتحادیوں کو خیال آیا ہے کہ یہ حکومت بہت بُری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکی سفارت خانہ ہماری جماعت میں موجود 15، 20 لوٹوں سے بار بار ملاقات کر رہا تھا، جس کے بعد امریکی سفارت خانہ اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کرنے لگا، ہمارے پاس ساری رپورٹ موجود ہے۔

مزید پڑھیں: الیکشن کی تاریخ کے اعلان تک عوام کا سمندر اسلام آباد سے واپس نہیں جائےگا، عمران خان

عمران خان نے کہا کہ امریکی سفارتخانے کا کام خارجہ پالیسی پر تبادلہ خیال کرنا ہے، ان کا کام ہمارے بیک بینچرز سے ملنا نہیں ہے، پھر انہوں نے خیبر پختونخوا میں ہمارے وزیر عاطف خان سے ملاقات کی اور کہا کہ خیبرپختونخوا میں بھی تحریک عدم اعتماد پیش کی جاسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا اس کے بعد ہمارے اتحادی الگ ہوئے اور سندھ ہاؤس میں ایک منڈی لگی جہاں 20، 20 کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی، اس کے بعد حکومت گر گئی۔

سابق وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے آغاز میں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم جب آئے تو پاکستان دیوالیہ ہونے والا تھا، ہمارے دوست ملک مدد نہ کرتے تو ہم ڈیفالٹ کرجاتے۔

ان کا کہنا تھا کہ بہت مشکل سے پہلا سال گزرا جس کے بعد دوسرے سال میں کورونا وائرس آگیا، اس وقت ساری دنیا نے دباؤ ڈالا کہ لاک ڈاؤن کرو، ہم نے دنیا بھر کا دباؤ برداشت کیا اور مکمل لاک ڈاؤن نہیں کیا، دو سال بعد دنیا نے مثال دی کہ جس طرح پاکستان کورونا وائرس سے نمٹا ہے یہ دنیا کے لیے مثال ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو سخت ردعمل دیا جائے گا، پی ٹی آئی

انہوں نے کہا کہ پہلے سال میں ہماری معاشی کارکردگی 5.6 فیصد جبکہ دوسرے سال 6 فیصد تھی یعنی تین سالوں میں ہماری معاشی کارکردگی سب سے بہترین تھی۔

عمران خان نے کہا کہ ہمارے دور میں زراعت میں مسلسل دو سال اضافی تعداد میں فصل پیدا ہوئی، جبکہ صنعت اور ٹیکسٹائل نے بھی زبردست ترقی کی، جب ملک ایک صحیح سمت میں گامزن تھا تو کیا وجہ ہوئی کہ انہیں لگا کہ حکومت کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے پیچھے ایک وجہ تھی اور وہ وجہ سازش تھی۔

’جس بھی وزیراعظم کو دھمکی ملے گی وہ وہی کرے گا جو مشرف نے کیا‘

چیئرمین پی ٹی آئی نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ ’اگر آج پاکستانی قوم نے اس کے خلاف قدم نہیں اٹھایا تو پاکستان کا کوئی وزیر اعظم آزاد خارجہ پالیسی نہیں چلا سکے گا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ امریکا سے دھمکی ملی تھی کہ اگر آپ جنگ میں ہمارا ساتھ نہیں دیں گے تو ہم پاکستان کو بم سے اڑا دیں گے اور ہم نے امریکا کی ایک دھمکی کے آگے گھٹنے ٹیک دیے تھے، اس دوران پاکستان میں 400 ڈرون حملے ہوئے جس میں سیکڑوں شہری جاں بحق ہوئے، لیکن کسی نے ان کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔

مزید پڑھیں: یہ حکمران رہ گئے تو ملک کو وہ نقصان ہوگا جو کوئی دشمن بھی نہیں پہنچا سکتا، عمران خان

انہوں نے کہا کہ یہ ہے غلامی اور اس غلامی کے خلاف میں کھڑا تھا، میرے لیے بھی یہ بہت آسان تھا کہ میں کہتا کہ میں روس نہیں جاؤں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا روس جانے کا مقصد کم قیمت پر گندم اور تیل خریدنا تھا، یہ میری ذات کے لیے نہیں بلکہ میرے لوگوں کے لیے فائدہ مند تھا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ میں امریکیوں کو بہت اچھے سے جانتا ہوں، جب تک آپ امریکا کے سامنے جھکتے جائیں گے وہ آپ کو ڈو مور کہتے جائیں گے، آپ کو اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونا پڑتا ہے، اگر آپ اپنے ملک کے مفادات کے لیے کھڑے ہوں گے تو وہ آپ کی عزت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ کونسا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ سندھ ہاؤس میں ہارس ٹریڈنگ کی جائے، قومی سلامتی کمیٹی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ مداخلت ہوئی ہے، اگر مداخلت ہوئی ہے تو کیا اس کی تفتیش نہیں ہونی چاہیے تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جو بھی پاکستان کا وزیر اعظم آئے گا جب اس کو دھمکی ملے گی وہ بھی وہی کرے جو جنرل مشرف نے کیا تھا، ایک ہی ٹیلی فون کال پر کسی اور کی خارجہ پالیسی کے لیے اپنے ملک کے مفادات قربان کردے گا۔

مزید پڑھیں: میری ’کردارکشی‘ کیلئے مواد تیار کیا جارہا ہے، عمران خان

انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی ملک کے لوگوں کے مفادات کے لیے ہوتی ہے، بھارت کی آزاد خارجہ پالیسی ہے وہ کسی سے ہدایات نہیں لیتے، انہوں نے کھل کر کہا کہ یوکرین ۔ روس جنگ کا معاملہ ہمارا نہیں ہے، ہم نے اپنے لوگوں اور اپنی ملک کی غربت کو دیکھنا ہے۔

’نیوٹرلز کو بتایا تھا سازش کے اثرات ملک کی معیشت پر پڑیں گے‘

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میں نے ’نیوٹرلز‘ کو اس سازش کے بارے میں آگاہ کیا اور کہا کہ اسے روکیں رونہ ملک کو مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے، میری ہدایت پر شوکت ترین نے بھی انہیں وضاحت دی کہ اگر یہ سازش کامیاب ہوگئی تو اس کا براہِ راست معیشت پر اثر پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی قابل حکومت آتی تو ان کے پاس کوئی روڈ میپ ہوتا اور آتے ہی کہتے کہ ہم نے یہ اقدامات کرنے ہیں تو مارکیٹ کا اعتماد جاتا نہ ہی مارکیٹ میں روپے کی قدر گرتی، انہوں نے آتے ہی احمقانہ بیانات دینا شروع کردیے۔

انہوں نے کہا کہ قانون کی بالادستی کی سب سے بڑی ذمہ داری پاکستان کی عدلیہ اور وکلا کمیٹی پر ہے، ہمارے ملک میں امیر کو قانون کے نیچے لانا ایک جہاد ہے، ان کے خلاف ایف آئی اے کے جو کیسز تھے وہ ہماری حکومت کے نہیں اس سے پہلے کے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے کارکنوں کو اسلام آباد میں مارچ کی تیاری کی ہدایت کردی

پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا کہ یہ سب کے سامنے ہے کہ منی لانڈرنگ کیس میں 4 افراد انتقال کرچکے ہیں، آپ کے سامنے ہے کہ ملک کی قانونی بالادستی کو دفن کیا جارہا ہے۔

نیب قانون میں ترمیم کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ اب نیا قانون آگیا ہے جس کے تحت بلے دودھ کی رکھوالی کریں گے، نیب پر شہباز شریف براجمان ہوگئے ہیں، نیب ختم ہونے کا مقصد ہے کہ تمام کیسز ختم ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کا یہ حال ہے کہ راجا ریاض اپوزیشن رہنما ہیں جو کہتے ہیں کہ میں (ن) لیگ کے ٹکٹ پر اگلا الیکشن لڑوں گا، اس کا مطلب ہے کہ پارلیمنٹ ختم ہوگئی ہے۔

الیکشن کمیشن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ قانون کہتا ہے کہ جب اسمبلی کا رکن نااہل قرار دے دیا جائے تو اس کی جگہ دوسرے رکن کو لایا جائے، لیکن الیکشن کمیشن نے انہیں الیکشن لڑنے کا موقع دے دیا ہے، ضمنی انتخابات میں دھاندلی کا ایک بڑا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ دھاندلی کا مقصد ہمارا الیکشن کا نظام اب بدنام ہونے والا ہے، وہ تمام ادارے جنہوں نے جمہوریت کی حفاظت کرنی ہے وہ سب خطرے میں ہیں۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا عمران خان کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنے کا حکم

انہوں نے کہا کہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کو قانون کی خلاف ورزی کرنے پر تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے، کوئی ایسا ملک امیر ملک نہیں ہے جہاں قانون نہ ہو، کوئی ایسا غریب ملک نہیں ہے جہاں مکمل طور پر قانون کی بالادستی ہو۔

ان کا کہنا تھا جب پرویز مشرف کی حکومت میں ہم عدلیہ کی آزادی کے لیے سڑکوں پر نکلے تھے تو میں واحد لیڈر تھا جسے جیل میں ڈالا گیا، لیکن اس کریک ڈاؤن میں بھی ایسا نہیں ہوا جو اب ہوا، ڈی چوک پر انہوں نے خواتین اور بچوں کے ساتھ جو سلوک کیا، یہ کس قانون کے تحت کیا گیا۔

سابق وزیر اعظم نے وکلا برادری کو ہدایت دی کی آپ سب نے اپنے ملک کی حقیقی آزادی کے لیے نکلنا ہے، اگر اس وقت یہ حکومت چلتی رہی تو مجھے خوف ہے کہ یہ پاکستان کو کمزور کر کے جائیں گے، ملک کا حال سری لنکا جیسا ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک کو اس دلدل سے صرف ایک چیز نکال سکتی ہے، وہ واحد حل صاف و شفاف انتخابات ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024