• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

شیریں مزاری کی گرفتاری سے متعلق سیکریٹری قومی اسمبلی سے 7 جولائی تک رپورٹ طلب

شائع June 16, 2022
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم کمیشن کو سپروائز نہیں کر سکتے، ان کو اپنا کام کر دیں — فائل فوٹو: ڈان نیوز
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم کمیشن کو سپروائز نہیں کر سکتے، ان کو اپنا کام کر دیں — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے قومی اسمبلی کے سیکریٹری سے سابق وزیر انسانی حقوق اور پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری کی گرفتاری سے متعلق رپورٹ 7 جولائی تک طلب کرلی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شیریں مزاری کی گرفتاری کی تحقیقات کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی، جس میں شیریں مزاری اور ایڈووکیٹ ایمان مزاری اپنے وکیل علی بخاری کے ہمراہ پیش ہوئیں۔

دورانِ سماعت عدالت میں ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود نے شیریں مزاری کی گرفتاری کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن کی تشکیل کا نوٹی فکیشن پیش کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری کو 'گرفتار' کرلیا گیا

وفاقی حکومت سے 4 جون کو جاری ہونے والے نوٹی فکیشن میں کمیشن کے ٹی او آرز بیان کیے گئے ہیں، جس کے مطابق تین رکنی کمیشن کے سربراہ سابق سیکریٹری قانون، جسٹس ریٹائرڈ شکور پراچا ہوں گے۔

ان کے علاوہ سابق آئی جی ڈاکٹر نعمان خان اور سابق وفاقی سیکریٹری ڈاکٹر سیف اللہ چٹھہ بھی کمیشن کا حصہ ہیں۔

نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ کمیشن، شیریں مزاری کی گرفتاری سے متعلق تحقیقات کر کے 30 روز میں اپنی رپورٹ وفاقی حکومت کو جمع کرائے گا۔

ساتھ ہی کمیشن غیر جانبدارانہ انکوائری سے گرفتاری میں اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات کا جائزہ لے گا اور 4 جولائی تک اپنی سفارشات وفاقی کابینہ کو بھیجے گا، اس سلسلے میں اسلام آباد انتظامیہ کمیشن کو سیکریٹریٹ سپورٹ فراہم کرے گی۔

مزید پڑھیں: ‘انتقامی کارروائی کسی کےخلاف نہیں ہونی چاہیے’، شیریں مزاری کی گرفتاری پر مذمتی بیانات

شیریں مزاری کے وکیل علی بخاری نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ہمارا اعتراض یہ ہے کہ 4 جون کو انکوائری کمیشن کا نوٹی فکیشن جاری ہوا لیکن ابھی تک کمیشن سے متعلق کچھ نہیں ہوا نہ ہمیں بلایا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹی او آر سے متعلق بھی ایک درخواست تھی کہ اس میں کرمنل کارروائی کی تحقیقات کا ذکر بھی ہو جاتا۔

چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم کمیشن کو سپروائز نہیں کر سکتے، ان کو اپنا کام کر دیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اس عدالت کی اس بارے میں یہ رائے ہے کہ کارروائی قانونی عمل کے مطابق نہیں تھی، اگر آپ کا کوئی اعتراض مستقبل میں ہو تو دوبارہ درخواست دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے کوئی رپورٹ آئی ہے؟ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی کوئی رپورٹ مجھے نہیں دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: شیریں مزاری کی گرفتاری کی تحقیقات کیلئے کمیشن کا اعلان جلد متوقع

چیف جسٹس نے کہا کہ علی وزیر ابھی بھی جیل میں ہیں وہ بھی رکن قومی اسمبلی ہیں، جب یہ حکومت میں تھے اس وقت یہ بھی اراکین اسمبلی کو خوشی خوشی اندر کر دیتے تھے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا اس عدالت کی حدود سے اس قسم کے ہونے والے واقعات کی کوئی تحقیقات ہوئی ہیں؟ اس عدالت کی حدود سے صحافیوں کو بھی اٹھایا گیا کیا ان کی آج تک تحقیقات ہوئیں؟

بعد ازاں عدالت نے سیکریٹری قومی اسمبلی سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 7 جولائی تک ملتوی کردی۔

شیریں مزاری کی گرفتاری

خیال رہے کہ پی ٹی آئی کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے رواں سال 21 مئی کو اسلام آباد سے گرفتار کیا تھا۔

پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں اینٹی کرپشن یونٹ کی جانب سے 11 اپریل کو شیریں مزاری کے خلاف درج کی گئی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں کہا گیا تھا کہ شیریں مزاری کو ان کے والد عاشق محمد خان سے وراثت میں زمین ملی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ شیریں مزاری نے روجھان میں مذکورہ زمین سے پروگریسو فارم لمیٹڈ کو ’جعل سازی‘ کرتے ہوئے 800 کنال منتقل کی۔

دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسسٹنٹ کمشنر روجھان کے مطابق محکمہ ریونیو کے ریکارڈ میں ان کمپنیوں کا سراغ نہیں ملا اور لہٰذا ’یہ کمپنیاں بوگس تھیں‘۔

مقدمے میں مزید مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ شیریں مزاری پر الزام ہے کہ انہوں نے زمین کی ’جعلی‘ منتقلی کے لیے مقامی لینڈ اتھارٹیز سے مل کر سازش کی۔

ان کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں اسی روز رات 11 بجے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت میں پیشی کے بعد انہوں نے چیف جسٹس کو بتایا تھا کہ پولیس نے انہیں بغیر وارنٹ گرفتاری کے حراست میں لیا اور سادہ لباس میں موجود افراد نے ان سے موبائل فون بھی چھین لیا۔

اس پر عدالت نے ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے اور ان کا فون واپس کرنے کا حکم دیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024