آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ ’سماجی تحفظ‘ کے اقدامات پر کام کرنے کو تیار
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے حکام پاکستان کے مالی سال 23-2022 کے بجٹ کو ایسی دستاویز کے طور پر دیکھ رہے ہیں جس میں آئی ایم ایف پیکج کی بحالی کے لیے بات چیت آگے بڑھانے کے نکات شامل ہیں۔
خیال رہے کہ جمعہ کے روز پاکستان میں سال 23-2022 کےلیے 47 ارب ڈالر کا بجٹ پیش کیا گیا تھا جس میں مالی استحکام کے متعدد اقدامات شامل ہیں جس کی وجہ سے اسلام آباد کو امید ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو بیل آؤٹ ادائیگیوں کے لیے قائل کرلے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ دوحہ میں عملے کی سطح کے مذاکرات ہوئے، آئی ایم ایف اور پاکستان سبسڈیز واپس لینے اور ٹیکس کلیکشن بڑھانے جیسے متعدد اہم معاملات پر متفق ہوگئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف کا بجٹ کے حوالے سے مزید اضافی اقدامات کا مطالبہ
ذرائع کا کہنا ہے کہ جن اہم نکات پر دونوں فریقین متفق ہوئے ان میں سے ایک سماجی تحفظ تھا، یعنی غریبوں پر کفایت شعاری کے اقدامات کے اثرات کو کم کرنا۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف حکام تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں سے کچھ اقدامات غریبوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اپریل میں واشنگٹن میں آئی ایم ایف حکام کے ساتھ مذاکرات کے پہلے دور کے بعد وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے عام افراد کے زیر استعمال گاڑیوں یا پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے ایندھن کے پاس جاری کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
ذرائع نے کہا کہ مذاکرات کار اشیائے خورونوش جیسی ضروری چیز پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے پر بھی کام کر سکتے ہیں، کیوں کہ جب ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو مقامی طور پر پیدا ہونے والی ضروری اشیا کی قیمتیں بھی بڑھ سکتی ہیں۔
مزید پڑھیں: آئی ایم ایف پروگرام نہیں ہوگا تو قرض دہندہ اداروں سے ایک پیسہ نہیں ملے گا، مفتاح اسمٰعیل
کم درجے کے صارفین کے تحفظ کے لیے اسی طرح کے انتظامات پاور سیکٹر کے لیے بھی کیے جا سکتے ہیں، ذرائع میں سے ایک نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف ایسے اقدامات کو ’سماجی تحفظ‘ کے طور پر دیکھتا ہے اور ایسا کرنے میں حکومت کی مدد کے لیے تیار ہے۔
ذرائع نے میڈیا کی ان قیاس آرائیوں کو بھی مسترد کر دیا کہ آئی ایم ایف عبوری حکومت سے مذاکرات نہیں کرے گا۔
ذرائع میں سے ایک نے کہا کہ ’آئی ایم ایف کو عبوری حکومت سے معاملات میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، اگر وہ جو اقدامات کر رہے ہیں ان پر ان کے دور حکومت میں عمل درآمد کیا جا سکے‘۔
ذرائع نے مزید کہا کہ ’آئی ایم ایف کو گورننس اور بدعنوانی کے بارے میں بھی تحفظات ہیں‘ اور وہ ’کسی ایسے پروگرام سے وابستہ ہونا پسند نہیں کرے گا جو بدعنوانی کے لیے کھلا سمجھا جاتا ہو‘۔
یہ بھی پڑھیں: انتظامی معاملات کو ٹھیک کرنا ہوگا ورنہ معیشت نہیں سنبھلے گی، مفتاح اسمٰعیل
انہوں نے کہا کہ ’فنڈ یہ بھی پسند نہیں کرے گا کہ اسے سیاستدانوں کے ایک گروہ کی دوسرے کے خلاف مدد کرنے والا سمجھا جائے چاہے وہ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں۔
ذرائع نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کے تجویز کردہ اقدامات کا مقصد پاکستان کے مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنا ہے، فنڈ اس بار بہتر انتظام چاہتا ہے کیونکہ گزشتہ حکومت نے پچھلے جائزے میں متفقہ پالیسیوں سے انحراف کیا تھا۔
حکومت پہلے ہی اپنے پیشرووں کی سے دی گئی ایندھن اور پاور سیکٹر کی سبسڈی واپس لے چکی ہے، جو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔
بجٹ میں اعلان کردہ اقدامات میں3 کروڑ روپے کی سالانہ آمدنی والے افراد پر دو فیصد اضافی ٹیکس، چوری کی روک تھام کے ذریعے ٹیکس وصولی میں 20 فیصد اضافہ اور تیل کے بڑھتے ہوئے بل کو روکنے کے لیے ایندھن کی کھپت میں کمی شامل ہے۔
مزید پڑھیں: آئی ایم ایف سے پاکستان کو مزید قرض ملنا مشکل کیوں ہوگیا؟
حکومت نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ وہ ایندھن کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر سکتی ہے، اس اقدام سے صارفین کو نقصان پہنچے گا، علاوہ ازیں حکومت 23-2022 میں نجکاری سے 96 ارب روپے اکٹھا کرنے کا بھی منصوبہ رکھتی ہے۔
پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز روئز نے دو روز قبل میڈیا کو بتایا تھا کہ پاکستان کو فنڈ کے قرضے کے پروگرام کو ٹریک پر رکھنے کے لیے مزید سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان نے جولائی 2019 میں آئی ایم ایف کے ساتھ 39 ماہ کے لیے 6 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت پر دستخط کیے تھے لیکن فنڈ نے تقریباً 3 ارب ڈالر کی ادائیگی اس وقت روک دی جب گزشتہ حکومت اپنے وعدوں سے مکر گئی تھی۔