• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:14am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:41am Sunrise 7:10am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:14am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:41am Sunrise 7:10am

لاپتا بلوچ طلبہ ڈوڈا الٰہی، غمشاد بلوچ گھر پہنچ گئے، سماجی رہنما

شائع June 14, 2022
دونوں بلوچ طلبہ گزشتہ رات 3 بجے گھر پہنچے تھے— فوٹو: ٹوئٹر
دونوں بلوچ طلبہ گزشتہ رات 3 بجے گھر پہنچے تھے— فوٹو: ٹوئٹر

وائس آف بلوچستان مسنگ پرسن نامی تنظیم کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے کہا ہے کہ ڈوڈا الٰہی اور غمشاد بلوچ واپس گھر آگئے ہیں، انہیں مبینہ طور پر 7 جون کو ان کے گھر سے اٹھایا گیا تھا، دونوں جامعہ کراچی کے شعبہ فلسفہ میں زیر تعلیم ہیں۔

سماجی کارکن نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ رات 3 بجے دونوں طلبہ مسکن چورنگی کے قریب واقع اپنے گھر آئے، دونوں کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ سے ہے۔

قبل ازیں ڈوڈا الٰہی کے بہن بھائی شیہاق الٰہی اور ہدیٰ ہیر الٰہی نے ٹوئٹ کیا تھا کہ ان کے بھائی اور اس کے دوست کو ’باحفاظت رہا‘ کردیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: بلوچ طلبا کی گمشدگی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے 28 افراد زیر حراست

ڈوڈا الٰہی کے خاندان کے اراکین نے اس کے دوست کے ہمراہ ایک تصویر شائع کی جس سے ان کی رہائی تصدیق ہوئی۔

اہل خانہ نے ان کے واپس گھر آنے پر خدا کا شکر ادا کیا اور مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہونے والے افراد سے بھی تشکر کا اظہار کیا۔

خیال رہے گزشتہ روز پولیس نے کراچی یونیورسٹی سے ’لاپتا‘ بلوچ طلبہ اور ’جبری گمشدگیوں‘ کا شکار ہونے والے دیگر متاثرین کے حق میں سندھ اسمبلی کے مرکزی گیٹ کے قریب مظاہرہ کرنے والی خواتین سمیت 28 افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔

مزید پڑھیں: بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنے کا معاملہ، حکومت نے کمیشن بنانے کا حکم چیلنج کردیا

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے 2 طالب علم ڈوڈا بلوچ او غمشاد بلوچ کو 7 جون کو گلشن اقبال میں مسکن چورنگی کے قریب ان کے گھر سے اٹھایا گیا تھا اور اس کے بعد سے ان کا کوئی پتا نہیں چل سکا۔

ان کے اہلِ خانہ اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے گزشتہ 4 روز سے کراچی پریس کلب (کے پی سی) کے باہر احتجاجی کیمپ لگا رکھا تھا اور اتوار کی شام پریس کلب سے صوبائی اسمبلی تک احتجاجی ریلی بھی نکالی تھی۔

بجٹ کے اعلان کے سبب پولیس نے اور ضلعی انتظامیہ نے مظاہرین سے بات چیت کی، انہیں جگہ خالی کرنے پر آمادہ کیا ایس ایس پی ساؤتھ اسد رضا نے ڈان کو بتایا تھا کہ پولیس نے پیر کو اسمبلی کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے 19 مرد اور 9 خواتین کو حراست میں لیا جبکہ پولیس افسر مظاہرین کے ساتھ ناروا سلوک سے انکار کیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ خواتین پولیس اہلکاروں نے خواتین مظاہرین کو حراست میں لیا۔

اس دوران احتجاج کے منتظمین نے پولیس پر خواتین اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی کا الزام لگایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان یونیورسٹی کے طلبہ کی بازیابی کیلئے جاری دھرنا ملتوی

مظاہرین کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس لاپتا طالب علموں کے لواحقین کی محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں سے ملاقات کرانے کے اپنے وعدے سے مکر گئی، اس لیے انہوں نے دوبارہ سندھ اسمبلی کی عمارت کے قریب دھرنا دیا جہاں پولیس نے مظاہرین کو حراست میں لیا۔

قبل ازیں تقریباً 120 سے 130 رشتہ داروں اور مختلف تنظیموں کے ارکان، جن میں سماجی کارکنان سیمی دین بلوچ، عبدالوہاب بلوچ، آمنہ بلوچ، نغمہ شیخ اور دیگر شامل تھے، انہوں نے شام 4 بج کر 50 منٹ پر کے پی سی سے اسمبلی کی عمارت کی جانب اپنا مارچ دوبارہ شروع کیا جہاں بجٹ اجلاس جاری تھا، سرور شہید روڈ سے گزرتے ہوئے انہوں نے اسمبلی کے گیٹ کے سامنے دھرنا دیا۔

وہاں مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے سیمی بلوچ نے کہا کہ طلبہ کو لے جانا تعلیمی اداروں کے کردار کے قتل کے مترادف ہے۔ سیمی دین بلوچ نے کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب پر زور دیا کہ وہ دونوں طالب علموں کو بازیاب کرائیں، انہوں نے اعلان کیا کہ مظاہرین لاپتا طلبہ کی رہائی تک اسمبلی کے باہر اپنا مظاہرہ جاری رکھیں گے۔

غیر قانونی گرفتار کرنے کے الزامات کی تحقیقات کی جائے، وزیر اعلیٰ سندھ

گزشتہ رات سندھ اسمبلی کے سامنے بلوچ مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) محکمہ انسداد دہشت گردی پولیس عمران یعقوب کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی۔

وزیر اعلیٰ کی طرف سے تشکیل دی گئی کمیٹی میں ڈی آئی جی ٹریفک پولیس احمد نواز اور ایس ایس پی ویسٹ فرخ رضا شامل ہیں.

واضح رہے کہ کراچی یونیورسٹی کے ’لاپتا‘ بلوچ طلبہ اور ’جبری گمشدگیوں‘ کا شکار ہونے والوں کیلئے اہلخانہ اور دیگر سیاسی کارکنان کی طرف سے سندھ اسمبلی کے سامنے مظاہرہ کیا گیا تھا۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کمیٹی کو ہدایات جاری کی ہیں کہ واقعے کے حقائق کو جانچ کر بتایا جائے اور احتجاج کرنے والوں پر تشدد اور غیر قانونی گرفتار کرنے کے الزامات کی بھی تحقیقات کی جائے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ کمیٹی اپنی انکوائری کے حقائق کے مطابق اپنی سفارشات بھی رپورٹ میں دے اور کمیٹی 7 دن کے اندر انکوائری رپورٹ تیار کرکے بھیجے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024