• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

مخلوط حکومت سے علیحدگی کے خدشے پر آصف زرداری کی چوہدری شجاعت سے ملاقات

شائع June 14, 2022
سالک چوہدری کا کہنا ہے کہ ہم اتحادی حکومت کے ساتھ ہیں ہم اپنے عزم پر قائم رہیں گے— فوٹو: پی پی پی ٹوئٹر
سالک چوہدری کا کہنا ہے کہ ہم اتحادی حکومت کے ساتھ ہیں ہم اپنے عزم پر قائم رہیں گے— فوٹو: پی پی پی ٹوئٹر

بظاہر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور ان کے ساتھی اپنا ذہن تبدیل کرتے ہوئے دوبارہ اپنے کزن چوہدری پرویز الٰہی سے نہ مل جائیں، پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے ایک بار پھر چوہدری شجاعت سے رابطہ کیا تاکہ اس بات کی یقین دہانی ہوسکے کہ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ اتحادی حکومت کا حصہ رہیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آصف علی زرداری اسلام آباد سے چوہدری شجاعت کی رہائش گاہ پہنچے اور ان کے گھنٹہ بھر ملاقات کی، اس موقع پر چوہدری شجاعت کے بیٹے چوہدری سالک، چوہدری شافع اور پارٹی کے رہنما طارق بشیر چیمہ بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔

ملاقات ختم ہونے کے بعد جاری کردہ بیان میں پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ’وفاق میں موجود 9 جماعتوں کی حکومت مسلم لیگ (ق) کے (شجاعت گروپ) کے ساتھ کھڑی ہے اور وہ بھی حکومت کی مکمل حمایت کرتے ہیں‘۔

آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ق) کے اراکین قومی اسمبلی سالک شاہ اور طارق بشیر چیمہ وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ کا حصہ بھی ہیں۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کی چوہدری شجاعت سے ملاقات، بجٹ، پنجاب کے ضمنی انتخابات پر تبادلہ خیال

بات کو جاری رکھتے ہوئے آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت سیاست کا اثاثہ ہیں، اور ان کی جماعت ہمارے ساتھ اتحاد جاری رکھے گی‘۔

دونوں پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان یہ ایک ہفتے کے دوران دوسری ملاقات تھی، وزیر اعظم شہباز شریف اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی گزشتہ ہفتے حکومت کے لیے حمایت کی تصدیق کے لیے چوہدری شجاعت سے ملاقات کی تھی۔

پارٹی میں موجود ایک رہنما نے ڈان کو بتایا کہ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ نے اپنے کزن اور بھتیجے، پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کے مشورے کے خلاف شریفوں سے ہاتھ ملانے کا انتخاب کیا تھا لیکن الٰہی گروپ کو پھر بھی یقین تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اعتماد کی شدید کمی کی وجہ سے کسی نازک موڑ پر چوہدری شجاعت اور گروپ کسی کے کہنے پر اتحاد کو ختم کر سکتے ہیں۔

ان کے درمیان اختلافات کے باوجود یہ اطلاعات تھیں کہ چوہدری شجاعت پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الٰہی اور سابق وفاقی وزیر مونس الٰہی کا بہت احترام کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ خاندان میں اتفاق رائے پیدا کریں۔

یہ بھی پڑھیں: چوہدری شجاعت کا پرویز الہٰی سے اختلاف برقرار، (ن) لیگ سے اتحاد جاری رکھنے کی یقین دہانی

تاہم پرویز الٰہی کیمپ سابق وزیراعظم عمران خان کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹ رہا ہے۔

معاملات سے با خبر پارٹی رکن نے کہا کہ ’پرویز الٰہی، چوہدری شجاعت اور ان کے بیٹوں کو مخلوط حکومت سے نکالنے اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی حمایت کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ چوہدری خاندان کے کچھ اراکین دونوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرتے ہوئے دونوں کو ایک پیج پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ملاقات کے بعد ڈان سے بات کرتے ہوئے سالک حسین نے کہا کہ آصف علی زرداری نے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور انہیں اور طارق بشیر چیمہ کو وفاقی کابینہ کا حصہ بننے پر باضابطہ مبارکباد دی۔

اس سوال کہ کیا اتحادی رہنماؤں کے شکوک و شبہات یا 'بے اعتمادی' آصف زرداری، شہباز شریف اور فضل الرحمٰن کو چوہدری شجاعت سے بار بار ملاقات کرنے پر مجبور کرتی ہے، کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ ’ہم اتحاد کے ساتھ ہیں کیونکہ ہم نے اس کی تشکیل سے قبل اس کے ساتھ عہد کیا تھا، ہم اپنے وعدے پر قائم اور اتحاد کے ساتھ رہیں گے‘۔

چوہدریوں کے درمیان اختلافات کے بارے میں ایک سوال پر انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’ایک خاندان کے طور پر ہم متحد ہیں، پرویز الٰہی نے بھی اتحاد کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ یہ پارٹی کا متفقہ فیصلہ تھا لیکن بعد میں عمران خان کا انتخاب کیا۔

مزید پڑھیں: چوہدری شجاعت نے خاندان، پارٹی میں اختلافات کی تردید کردی

آصف زرداری کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ پرویز الٰہی اور شریفوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

آصف زرداری نے اپنی اہلیہ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد ایک بار مسلم لیگ (ق) کو ’قاتل لیگ‘ کہا تھا، لیکن بعدازاں 2011 میں اپنے سنگین الزام کو محض 'سیاسی' قرار دیتے ہوئے اس پارٹی کو مرکز میں اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔

ایک پی پی رہنما نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما قمر زمان کائرہ نے بھی مبینہ طور پر سپریم کورٹ کی جانب سے یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد اپنے وزیراعظم بننے کے امکانات کو مسترد کر دیا تھا۔

پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے کہا کہ چوہدریوں نے گجرات میں اپنے حریف ہونے کی وجہ سے آصف زرداری کی جانب سے قمر زمان کائرہ کو منتخب کرنے کی مخالفت کی تھی،’آصف زرداری سیاست میں امکانات کے فن پر یقین رکھتے ہیں، وہ اتحاد بنانے میں کوئی جرات مندانہ قدم اٹھانے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتے‘۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024