• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

سیاسی مخالفت کے پیش نظر بجٹ میں غیرمقبول ٹیکس کے نفاذ سے گریز

شائع June 11, 2022
سیاسی مخالفت کی وجہ سے غیر مقبول ٹیکس نافذ کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔ —فائل فوٹو: ڈان نیوز
سیاسی مخالفت کی وجہ سے غیر مقبول ٹیکس نافذ کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔ —فائل فوٹو: ڈان نیوز

اتحادی حکومت کا پہلا بجٹ اور اگلے عام انتخابات سے قبل ممکنہ طور پر آخری بجٹ کے بارے میں وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے گزشتہ روز کہا کہ میں سیاسی ردعمل کے خوف سے غیر مقبول ٹیکس اقدامات کرنے سے گریز کیا گیا ہے اور آئندہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی کی 5فیصد شرح نمو اور 11.5 فیصد افراط زر پر 16.6 فیصد زیادہ ہدف حاصل کرنے کی امید ظاہر کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے ریئل اسٹیٹ سیکٹر اور بینکنگ سیکٹر کے منافع سے ہونے والے لین دین اور زیادہ آمدنی کو بھی ٹیکس میں رکھا ہے،تاہم تنخواہ دار طبقے، ٹیکسٹائل اور فارماسیوٹیکل سیکٹر جیسے چند شعبوں کو بھی کسی نہ کسی طرح ریلیف فراہم کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: مالی سال 23-2022 کا بجٹ پیش، دفاعی بجٹ میں اضافہ، ماہانہ ایک لاکھ تک تنخواہ پر ٹیکس ختم

تجویز کیے گئے منصوبے کے مطابق فنانس بل میں اعلان کردہ ریونیو ریلیف تبدیلیوں کے تحت حکومت صنعتوں اور افراد کو 85 ارب روپے دینے کا ارادہ رکھتی ہے، اس رقم میں سے 6 ارب روپے کسٹم ڈیوٹی، 30 ارب روپے سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) جبکہ 49 ارب روپے انکم ٹیکس کی مد میں دینے کی تجویز کی گئی ہے۔

انکم ٹیکس کے تحت ریونیو کے اقدامات سے 316 ارب روپے وصول ہوں گے اس کے بعد سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے 90 ارب روپے اور کسٹم ڈیوٹی سے 34 ارب روپے حاصل ہوں گے، ریلیف میں دی گئی رقم کی کٹوتی کے بعد خالص آمدنی 355 ارب روپے ہو گی۔

سرکاری دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ مالی سال 23-2022 میں جی ڈی پی میں 3 فیصد کی شرح نمو سے 121 ارب روپے پیدا کرنے میں مدد ملے گی جبکہ 12.8 فیصد پر معمولی افراط زر 403 ارب اضافی پیدا کرے گا۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا مقصد ان اقدامات کو عمل میں لانے کے ذریعے 524 ارب روپے کا اضافی ریونیو اکٹھا کرنا ہے۔

ان تمام اقدامات کا مجموعی اثر مالی سال 2023 کے 70کھرب روپے کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے 879 ارب روپے ہوگا۔

انکم ٹیکس

فنانس بل میں غیر پیداواری غیرمنتقل جائیداد کی آمدن پر 5 فیصد ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ مہنگائی سے ستائے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دے گا، تحریک انصاف

ایک پلاٹ پر استثنیٰ کے علاوہ دوسرے کھلے پلاٹ سے ڈھائی کروڑ روپے کی کٹوتی ہو گی، ایف بی آر کا تخمینہ صرف اس ٹیکس سے 30 ارب روپے تک ٹیکس وصول کرنے کا ہے۔

اسی طرح غیر منتقل جائیداد پر کیپٹل گین ٹیکس کی شرح میں چھوٹ کی حد کو چار سے بڑھا کر چھ سال تک کردیا گیا ہے تاہمکیپٹل گین ٹیکس سے ریونیو کی وصولی کا تخمینہ 40 ارب روپے تک لگایا گیا ہے۔

فعال ٹیکس دہندگان کی جانب سے غیر منتقل جائیداد کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس کو 1 فیصد سے بڑھا کر 2 فیصد تک کردیا گیا ہے جبکہ غیر فعال ٹیکس دہندگان کی صورت میں 2 فیصد سے 5 فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے۔ ایف بی آر کا تخمینہ ہے کہ اس اقدام سے 65 ارب روپے کا ریونیو بڑھے گا۔

ایف بی آر پاکستانیوں کے مائع غیر ملکی اثاثوں پر 1 فیصد کیپٹل ویلیو ٹیکس لگا کر 10 ارب روپے، پاکستانی باشندوں کی بیرون ملک میں غیر منتقل جائیدادوں پر 1 فیصد کیپٹل ویلیو ٹیکس سے مزید 8 ارب روپے اور 1600 سی سی سے اوپر کی لگژری گاڑیوں پر ایڈوانس انکم ٹیکس میں اضافے سے مزید 10 ارب روپے اکٹھا کرنے کی توقع رکھتا ہے۔

30 کروڑ روپے یا اس سے زائد آمدنی والے افراد اور کاروباری اداروں کی زیادہ آمدنی پر غربت کے خاتمےکے لیے 2فیصد کا ٹیکس لاگو کیا گیا ہے، اس اقدام سے ایف بی آر کو 38 ارب روپے وصول ہوں گے۔

بینکنگ کمپنیوں پر ونڈ فال گین ٹیکس 39 فیصد سے بڑھا کر 42 فیصد کردیا گیا ہے جس سے 28 ارب روپے کی اضافی رقم حاصل ہوگی۔

مزید پڑھیں:گاڑیوں کے مقامی اسمبلرز ایڈوانس ٹیکس میں اضافے سے ناخوش

ایف بی آر نے ٹی بلز سمیت سرمایہ کاری کے تمام آلات سے منسوب آمدنی پر بینکوں کے کم ایڈوانس ٹو ڈپازٹ تناسب پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا ہے جس سے 25 ارب روپے اضافی حاصل ہوں گے۔

ایف بی آر نجی فنڈ سے چلنے والی گریجوٹی اور پنشن اسکیموں سے 10 ارب روپے کا انکم ٹیکس اکٹھا کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے، خام مال کی تجارتی درآمدات پر ٹیکس کی شرح 2 فیصد سے بڑھا کر 4 فیصد کر دی گئی ہے جس سے ایف بی آر کو 17 ارب روپے وصول ہوں گے۔

فنانس بل میں چھوٹے خوردہ فروشوں کے لیے 3 ہزار سے 10 ہزار روپے تک کا فکسڈ ٹیکس متعارف کرایا گیا ہے اور مخصوص طبقے کے لیے 50 ہزار روپے کا ٹیکس متعارف کرایا گیا ہے جس میں کار ڈیلرز، قیمتی گھڑیاں وغیرہ شامل ہیں ان سے 30 ہزار روپے، 50 ہزار اور 1 لاکھ روپے کے ماہانہ بجلی کے بلز کے ذریعے جمع کیے جائیں گے اور یہ مکمل اور حتمی ٹیکس ہوگا جس سے ایف بی آر کا تخمینہ ہے کہ 30 ارب روپے حاصل ہوں گے۔

ایف بی آر نے فائلرز کے لیے ڈیبٹ، کریڈٹ یا پری پیڈ کارڈ کے ذریعے غیر ملکی ترسیلات پر 1 فیصد اور نان فائلرز کے لیے 2 فیصد ایڈوانس ٹیکس عائد کیا ہے جبکہ آئی ٹی برآمدات پر 0.25 فیصد کی کمی کی شرح عائد کی گئی ہے۔

تنخواہ دار طبقے کے لیے کم از کم قابل ٹیکس آمدنی 6 لاکھ سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے کردی گئی ہے

تنخواہ کے سلیب کی تعداد 12 سے کم کر کے 7 اور زیادہ سے زیادہ شرح 35 فیصد سے کم کر کے 32.5فیصد کر دی گئی ہے جبکہ تنخواہ دار شہریوں کے لیے 47 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے۔

چھوٹے تاجروں اور خواتین کے لیے کم از کم ٹیکس بریکٹ 4 لاکھ روپے سے بڑھا کر 6 لاکھ روپے کر دیا گیا ہے جس سے قومی خزانے پر 2 ارب روپے لاگت آئے گی۔

مسلم لیگ(ن) نے 2018 میں اسی طرح کا ٹیکس متعارف کرایا تھا لیکن بعد میں پاکستان تحریک انصاف کی اس ٹیکس نظام کو تبدیل کر دیا تھا۔

سیونگ سرٹیفکیٹس، پنشنر بینیفٹ اور شہدا کے خاندانی بہبود کے اکاؤنٹ میں سرمایہ کاری پر قابل ٹیکس منافع کی حد 10 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد تک کردی گئی ہے۔

تاہم، حکومت نے فلم سازوں کو پانچ سال تک ٹیکس سے استثنیٰ کی پیشکش کی ہے، اس کے علاوہ نئے سینما گھروں، پروڈکشن ہاؤسز اور فلم میوزیم کو پانچ سال کے لیے ٹیکس چھوٹ اور فلم اور ڈرامے کی ایکسپورٹ کے لیے 10 برس، سینما گھروں اور پروڈیوسرز کی آمدنی پر چھوٹ، فلم پر ٹیکس ودہولڈنگ ٹیکس پروڈیوسر اور ڈسٹری بیوٹرز اور فلم کے آلات کی درآمد پر سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی بھی صفر کردی گئی ہے جس سے فلم انڈسٹری کو فروغ ملے گا۔

صنعت اور کاروباری فرسودگی کی لاگت کو پہلے سال کے لیے 50 فیصد سے 100 فیصد تک کر دیا گیا ہے اور خام مال کی درآمد پر درآمدی مرحلے پر جمع ہونے والے ود ہولڈنگ ٹیکس کو مکمل بورڈ میں ایڈجسٹ کر دیا گیا ہے، مسافر ٹرانسپورٹ گاڑی کی حد 25 لاکھ روپے سے بڑھا کر 50 لاکھ روپے تک کی گئی ہے۔

سیلز ٹیکس

حکومت نے وفاقی دارالحکومت میں سیلز ٹیکس کی شرح 16 فیصد سے کم کر کے 15 فیصد تک کر دی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ تمام قسم کے بیج، سولر پینل، ٹریکٹر، درآمدات اور خیراتی ہسپتالوں کی مقامی سپلائی، اقوام متحدہ کے سفارت کاروں اور مراعات یافتہ افراد، پاور جنریشن پروجیکٹ کی مشینری اور عارضی درآمدات کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: انتظامی معاملات کو ٹھیک کرنا ہوگا ورنہ معیشت نہیں سنبھلے گی، مفتاح اسمٰعیل

حکومت نے کمپریسر اسکریپ، موٹر اسکریپ اور کاپر کٹنگ اسکریپ پر 3 فیصد تک سیلز ٹیکس نافذ کردیا ہے جس سے ایف بی آر نے 9 ارب روپے کی اضافی رقم وصول کرنے کا تخمینہ لگایا ہے۔

کسٹم ڈیوٹی

حکومت نے رنگین مادہ کی 10 ٹیرف لائنوں اور پیکیجنگ انڈسٹری کی 39 ٹیرف لائنوں پر ٹیرف کا نظام بھی کم کر دیا ہے اور زرعی مشینری اور زراعت پر مبنی صنعتی مشینری کو کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ موٹر اسپرٹ کی درآمد پر 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے جس سے ایف بی آر کو 30 ارب روپے حاصل ہوں گے۔

تاہم، برش ویئر کی صنعت اور مثانے کی ادویات کو تمام ٹیکسوں سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔

حکومت نے نئے بجٹ میں آٹو موٹیو سیکٹر، کوٹنگ انڈسٹری، فلٹرز کی تیاری، فارماسیوٹیکل سیکٹر، فلیورنگ پاؤڈرز، پانی کو صاف کرنے والے آلات، آئیوی کے پتوں کے عرق کے پاؤڈرز، بورڈز، ابتدائی طبی امدادی پٹیوں، اور خام مال کی درآمدات پر ڈیوٹی ٹیکس میں کمی کردی ہے۔

نئے بجٹ میں حکومت نے صنعتوں کے لیے خام مال پر بھی ڈیوٹی ٹیکس کم کر دیا ہے جس میں پلائیووڈ، وینرڈ پینلز، فٹ وئیر انڈسٹری، ایل ای ڈی لائٹ پارٹس جیسی اشیا شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’عوام دوست‘ بجٹ پیش کرنے پر وزیر اعظم کی مفتاح اسمٰعیل کو مبارکباد

مصنوعی فلیمینٹ یارن، مونو فیلامنٹ اور پولی پروپیلین کے سٹیپل فائبر کی درآمد پر 11 فیصد کسٹم ڈیوٹی اور 2 فیصد ایڈوانس کسٹم ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔

تاہم، ہائی کاربن وائر راڈ پر ریگولیٹری ڈیوٹی کی چھوٹ ختم کی گئی ہے جبکہ آپٹک فائبر کیبلز پر ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح 10 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دی گئی ہے۔

سگریٹ کے دو سلیبس پر ایف ای ڈی کی شرح میں اضافہ کردیا گیا ہے جس سے آمدنی میں 10 ارب روپے کا اضافہ متوقع ہے۔

کلب، بزنس اور فرسٹ کلاس سفر پر ہوائی جہاز اور ٹیلی کمیونیکیشن سروسز پر ایف ای ڈی کی شرح فیصد سے بڑھا کر 19.5 فیصد 10 ہزار روپے سے بڑھا کر 50 روپے کر دی گئی ہے، ہوائی جہاز کے سفر پر 3 ارب روپے ایف ای ڈی بڑھے گا جبکہ ٹیلی کمیونیکیشن سروسز سے صرف 1 ارب روپے آمدنی اکٹھی ہوتی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024