• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

اقتصادی جائزہ رپورٹ: ادائیگیوں کے بگڑتے ہوئے توازن نے پاکستان کی معاشی نمو کو دھندلا دیا

شائع June 9, 2022
وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل مالی سال 22-2021 کی اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کر رہے ہیں — فوٹو: اے پی پی
وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل مالی سال 22-2021 کی اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کر رہے ہیں — فوٹو: اے پی پی

وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے مالی سال 22-2021 کی اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کردی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شرح نمو 4.8 فیصد کے مقابلے میں 5.97 فیصد رہی۔

اسلام آباد میں وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور وزیر توانائی خرم دستگیر کے ہمراہ اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ پاکستان کا مسئلہ اور بدقسمتی یہ ہے کہ جب ہم ترقی کرتے ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں پھنس جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں مجموعی ملکی پیداوار میں شرح نمو 5.97 فیصد رہی اس نئے تخمینے کے ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ آپے سے باہر ہوگیا اور ادائیگیوں کے توازن کا بحران آگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اگلے سال جی ڈی پی کیلئے 5 فیصد شرح نمو کا ہدف مقرر

ان کا کہنا تھا کہ رواں برس ہماری درآمدات 76 سے 77 ارب ڈالر کے درمیان ہوں گی جو تاریخی اور جی ڈی پی کے تناسب سے بھی سب سے بڑا نمبر ہے۔

انہوں نے کہا کہ برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن صرف 28 فیصد ہوا جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ 45 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔

مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ایک زمانہ تھا جب پاکستان کی برآمدات، درآمدات کے مقابلے نصف ہوتی تھی جو اب صرف 40 فیصد رہ گئی ہے، یہ ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ ہم صرف 40 فیصد درآمدات کی ادائیگی برامدات سے کرسکتے ہیں 60 فیصد کے لیے ہمیں ترسیلات زر اور قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ہم بار بار ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 کے دوران جب دنیا بھر میں تجارت کم، پیٹرولیم مصنوعات، گیس سستی ہوگئی تھی اس دوران ادائیگیوں میں توازن آگیا تھا لیکن اس کے بعد جیسے ہی نمو کی اور وہی نسخہ اپنایا گیا تو ادائیگیوں کا توازن بگڑ گیا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ بڑے عرصے کے بعد پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے کم ہو کر 9.6 ارب ڈالر کی سطح پر آگئے ہیں اور آئندہ پیر منگل تک چین سے 2 ارب 40 کروڑ ڈالر ملنے کے بعد یہ دوبارہ 12 ارب ڈالر کی سطح پر آجائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معاشی سمت سدھارنے کی ضرورت ہے تیل کی قیمت عالمی منڈی میں بہت بلند ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ہمیں بھی قیمتوں میں 30، 30 روپے اضافہ کرنا پڑا۔

مزید پڑھیں: بجٹ 23-2022 : تین شعبوں پر ڈیوٹی ریشنلائزیشن جزوی طور پر منظور

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں مشکل فیصلے لینے پڑے، ملک دیوالیہ ہونے کی طرف جارہا تھا اب ہم اس راستے سے ہٹ گئے ہیں اب استحکام کے راستے پر گامزن ہیں اور جلد مستحکم نمو دیکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری نمو کے 2 پہلو ہیں ایک وہ کہ جو مستحکم ہو جس میں بار بار کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، ادائیگیوں کا توازن خراب نہ ہو۔

مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ رواں مالی سال جی ڈی پی کی شرح نمو 5.97 فیصد رہی لیکن ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ سے ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ آگیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں جامع نمو چاہیے، ہم غلطی یہ کرتے ہیں کہ سرمایہ کار طبقے کو تجارت آگے بڑھانے کے لیے مراعات دیتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ امرا جب صنعتیں لگاتے ہیں، مراعات پاتے ہیں تو درآمدات بہت بڑھ جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر جامع نمو ہوگی، غریب اور متوسط طبقے کی قوت خرید بڑھا کر نمو کی جائے تو اس سے مقامی اور زرعی پیداوار بڑھے لیکن درآمدی بل نہیں بڑھے گا کیوں کہ امرا جب خرچ کرتے ہیں تو اس میں درآمدی اشیا زیادہ ہوتی ہیں جبکہ غریب شخص آٹے، دال وغیرہ جیسی چیزوں پر خرچ کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آئندہ 12 ماہ کے دوران پاکستان کو 41 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی، وزیر خزانہ

وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک میں 80 فیصد صنعتیں درآمدات اور مقامی فروخت کے لیے لگی ہوئی ہیں، برآمدات کے لیے نہیں لگی اس لیے کوشش ہوگی کہ اب زیادہ تر صنعتیں برآمدات کے لیے لگیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ توانائی بہت مہنگی ہوگئی ہے اس لیے ہماری صنعتیں مقابلے کی دوڑ سے نکل گئی ہیں اور توانائی کی عدم فراہمی کی وجہ سے بند بھی ہوجاتی ہیں، گزشتہ دسمبر میں حکومت نے صنعتوں کو نصف گیس دینے کا اعلان کیا تھا جسے فروری میں مزید کم کردیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اب ہم ہر صنعت کو گیس دے رہے ہیں لیکن اگر مسلم لیگ (ن) کے سابقہ دور میں جس طرح توانائی کے سودے کیے تھے اگر پچھلی حکومت کووڈ 19 کے دنوں میں اس جیسے سودے کر لیتی تو آج بجلی، پیٹرول کی مہنگائی میں شاید کمی ہوتی۔

ان کا کہنا تھا کہ جو کہتے ہیں کہ بارودی سرنگیں بچھائی گئی تو یہ صرف مسلم لیگ (ن) یا اتحادی حکومت کے لیے نہیں تھی بلکہ ریاست پاکستان کے لیے تھیں، آج معیشت مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کی نہیں بلکہ پاکستان کی خراب ہورہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سوا ارب ڈالر ہے جو سال 18-2017 میں 2 ارب ڈالر تھی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی آج زیادہ ہے، پاکستان ہر اعداد و شمار میں پیچھے گیا ہے۔

مزید پڑھیں: 'ملکی ترقی کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز ملکر میثاق معیشت پر اتفاق کریں'

مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا ایک بہترین موقع تھا کیوں کہ اس کے بعد تیل، گیس، گھی کی قیمتیں کم ہوئیں جسے گزشتہ حکومت نے چھوڑ دیا۔

انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 سے دنیا بھر میں جانوں کا نقصان ہوا لیکن ریاست پاکستان کو معاشی نقصان نہیں ہوا تھا، جی 20 ممالک نے 4 ارب ڈالر سے زائد کی ادائیگیاں مؤخر کردیں، آئی ایم ایف سے ڈیڑھ ارب ڈالر اضافی ملے، پروگرام معطل کردیا یعنی دنیا بھر سے بہت سی مراعات ملیں لیکن آپ نے ان مراعات سے اپنی مالی حالت بہتر نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ گندم بھی آج ہمیں درآمد کرنی پڑ رہی ہے اور رواں برس 3 ملین ٹن گندم درآمد کی جائے گی جس کے لیے روس سے بات چیت کرنے کی پہلی منظوری دی گئی ہے، یہ وہ گندم تھی جو 18-2017 میں برآمد کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح گزشتہ برس ہم نے چینی بھی درآمد کی جو اس سے قبل ہم برآمد کررہے تھے، بہت جگہوں پر پاکستان پیچھے چلا گیا یہ کوئی اتفاق نہیں ہوسکتا بلکہ ان کی غلطیاں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 18-2017 میں جب ہم جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح 11.1 فیصد تھا لیکن پی ٹی آئی کی حکومت اپنے تینوں برسوں میں اس شرح کو نہیں چھو سکی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کی برآمدی صنعتوں کے خام مال پر تمام ٹیکس ختم کرنے کی ہدایت

مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ اس سال بھی 11.1 پر نہیں پہنچے گی لیکن 8.5 فیصد پہنچنے کا امکان ہے جبکہ اتنے بڑے نیوکلیئر پاور ملک کے لیے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح اور برآمدات کی شرح 15 فیصد سے کم نہیں ہونی چاہیے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ رواں برس ہماری درآمدات میں 50 فیصد اضافہ ہوا لیکن پاکستان میں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہماری درآمدات زیادہ ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری برآمدات زیادہ نہیں ہے۔

شرح نمو

اقتصادی سروے برائے سال 22-2021 کے مطابق رواں مالی سال میں مجموعی ملکی پیداوار کی شرح نمو میں 5.97 فیصد اضافہ ہوا، تاہم اب بھی بنیادی کلیاتی معیشت عدم توازن کا شکار ہے اور ملکی اور بین الاقوامی غیر یقینی حالات کی وجہ سے معیشت کو عدم استحکام کا سامنا ہے۔

پاکستان کی معیشت نے کورونا وبا (مالی سال 2020 میں 0.94 فیصد سکڑاؤ) کے باوجود بحالی کی طرف پیش قدمی جاری رکھی اور گزشتہ مالی سال 2021 میں شرح نمو 5.74 فیصد رہی۔

تاہم دنیا جو کہ ابھی کووڈ 19 کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی اومیکرون کے پھیلاؤ، افغانستان میں حکومت کی تبدیلی اور روس-یوکرین کے درمیان تنازع کی وجہ سے اس کی معاشی صورت حال غیر یقینی کا شکار ہے۔

مالی سال 2022 میں مجموعی ملکی پیداوار موجودہ منڈی کی قیمتوں پر 66 کھرب 950 ارب روپے رہی جو کہ گزشتہ سال 55 کھرب 796 ارب روپے تھی، اس طرح اس میں 20.0 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ڈالر کی اصطلاح میں یہ اضافہ 3 کھرب 83 ارب ڈالر ہے۔

مالی سال 2022 میں فی کس آمدنی ایک ہزار 798 ڈالر ریکارڈ کی گئی جو کہ خوشحالی میں بہتری کی عکاسی کرتی ہے۔

رواں مالی سال کے دوران زراعت کے شعبے میں شرح نمو 4.4 فیصد رہی جبکہ صنعتی شعبے 7.2 فیصد، تعمیراتی شعبے میں 3.1 فیصد، خدمات کے شعبے میں شرح نمو میں 6.2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

تجارتی خسارہ

پاکستان اقتصادی سروے کے مطابق حوصلہ افزا برآمدی کارکردگی کے باوجود ملک کی درآمدات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے، عالمی اجناس کی قیمتوں میں وسیع البنیاد اضافہ، کووِڈ 19 ویکسین کی درآمدات اور طلب میں دباؤ، سب نے مل کر بڑھتی ہوئی درآمدات میں اہم کردار ادا کیا۔

نتیجتاً تجارتی خسارہ 55.5 فیصد بڑھ گیا اور یہ 30.1 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کا 8.6 فیصد ہو گیا، جسے دستاویز میں 'تاریخی طور پر بہت زیادہ' کہا گیا ہے۔

سروے کے مطابق جولائی تا مارچ مالی سال 2022 کے دوران اشیا کی برآمدات میں 26.6 فیصد اضافہ ہوا اور ان کا حجم 23.7 ارب ڈالر تھا، جبکہ خدمات کی برآمدات میں 17.1 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 5.1 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔

نیشنل اکاؤنٹس کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2022میں اشیا اور خدمات کی برآمدات میں 39 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اشیا اور خدمات کی درآمدات میں 46 فیصد اضافہ ہوا۔

اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق اجناس کی عالمی قیمتوں میں اضافہ درآمدی ادائیگیوں کو نمایاں طور پر بڑھا کر درآمدات پر دباؤ ڈال رہا ہے، جس کے نتیجے میں جولائی سے اپریل 2022 کے دوران 32 ارب 90 کروڑ ڈالر کے بڑے تجارتی خسارے کی جزوی طور پر بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی بھیجی گئی ترسیلات زر سے مالی اعانت کی گئی۔

مہنگائی

سالانہ اعتبار سے رواں مالی سال کے جولائی سے اپریل تک مہنگائی 8 فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 11 فیصد پر پہنچ گئی۔

جائزہ رپورٹ میں مقامی سطح پر اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ کے طور پر اشیا بالخصوص خام تیل، خوردنی تیل کی قیمتیں بڑھنے کا حوالہ دیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ شعبے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو افراطِ زر میں نمایاں کردار ٹرانسپورٹ مہنگی ہونے کا رہا اور اس کے بعد گھریلو آلات، دیکھ بھال، رہائش، پانی، بجلی و گیس نے بھی حصہ ڈالا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ نہ خراب ہونے والی اشیائے خورونوش نے مجموعی طور کھانے پینے کی چیزوں کی افراط زر کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

ایف بی آر کی ٹیکس وصولی

سروے میں بتایا گیا کہ فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس دہندگان کی سہولت کے لیے مختلف پالیسی اور انتظامی اقدامات شروع کیے ہیں تاکہ ملکی وسائل کو متحرک کیا جا سکے اور ختم ہونے والے مالی سال میں ترقی کی رفتار کو متاثر کیے بغیر خاطر خواہ آمدنی حاصل کی جا سکے۔

اس کے نتیجے میں مالی سال 2022 کے جولائی تا اپریل کے دوران ایف بی آر کی ٹیکس وصولی میں 28.5 فیصد کا خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔

اس عرصے کے دوران جمع ہونے والی رقم 4 کھرب 855 ارب روپے رہی جو گزشتہ سال کے 3 کھرب 777 ارب روپے تھی۔

تاہم ٹیکس ریلیف کے اقدامات نے اپریل کے مہینے کے دوران تقریباً 73 ارب روپے کی آمدنی کی وصولی کو متاثر کیا ہے۔

مالیاتی خسارہ

جائزہ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں ٹیکس کی وصولی میں نمایاں اضافے کے باوجود زائد کرنٹ اور ترقیاتی اخراجات نے مالیاتی خسارے کو جولائی سے مارچ کے دوران جی ڈی پی کے 3.8 فیصد تک بڑھا دیا تھا جو کہ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران 3 فیصد تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ویکسین کی خریداری کے لیے کووِڈ 19 فنڈز کے تحت اضافی اخراجات، آئی پی پیز کے گردشی قرضوں کی ادائیگی، سماجی شعبے کے اخراجات، اور زیادہ ترقیاتی اخراجات کی وجہ سے، مالیاتی شعبہ زبردست دباؤ میں رہا۔

اس کے علاوہ یوکرین کے تنازع کے ساتھ ساتھ اشیا اور تیل کی بین الاقوامی قیمتوں پر پڑنے والے اثرات نے رواں مالی سال کے دوران مالیاتی گراوٹ کا خطرہ بڑھا دیا ہے۔

اقتصادی سروے کے مطابق حکومت نے ابتدائی طور پر ریلیف فراہم کرنے کے لیے تیل کی قیمتوں کو منجمد کر دیا تھا لیکن بین الاقوامی مارکیٹ میں ایندھن اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ریلیف کی فراہمی نے دو دھاری تلوار کا کام کیا اور ممکنہ طور پر مالیاتی خسارے میں اضافہ جبکہ مالیاتی گنجائش کو کم کیا۔

اقتصادی سروے 22-2021 کے چیدہ چیدہ نکات:

  • مالی سال 2022 میں مجموعی ملکی پیداوار کی شرح نمو میں 5.97 فیصد اضافہ ہوا۔

  • زراعت کے شعبے میں شرح نمو 4.4 فیصد رہی جس کی بنیادی وجہ فصلوں میں 6.6 فیصد اور لائیوسٹاک میں 3.3فیصد اضافہ ہے۔

  • صنعتی شعبے میں 7.2 فیصد کی نمو ریکارڈ کی گئی جبکہ گزشتہ مالی سال 2021 میں صنعتی شعبے کی کارکردگی میں 7.8 فیصد اضافہ ہوا تھا۔

  • کان کنی اور کھدائی کے شعبے میں منفی 4.5 فیصد شرح نمو جبکہ بجلی، گیس اور پانی کی فراہمی کے ذیلی شعبہ جات میں 7.9فیصد شرح نمو ریکارڈ کی گئی۔

  • تعمیراتی شعبے کی شرح نمو میں 3.1 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

  • مالی سال 22-2021 کے دوران زراعت کے شعبے کی شرح نمو 4.40 فیصدپر حوصلہ افزا رہی۔

  • جولائی تا مارچ مالی کے دوران بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) کی شرح نمو میں 0.4 فیصد اضافہ ہوا۔

  • جولائی تا مارچ مجموعی ٹیکس کلیکشن 17.7 فیصد سے بڑھ کر 5 کھرب 874 ارب روپے (جی ڈی پی کا 8.8فیصد) ہو گئے۔

  • مالی سال 2022 کے دوران جولائی تا مئی کے عرصہ میں مہنگائی کی شرح اوسط 11.3فیصد رہی جو گزشتہ سال کی مدت میں 8.8 فیصد تھی۔

  • رواں مالی سال 2022 کے جولائی تا اپریل میں برآمدات 27.8 فیصد کے اضافے کے ساتھ 26.8 ارب ڈالر پر پہنچ گئیں۔

  • صحت کے اخراجات مالی سال 2020 کے 5 کھرب 5 ارب 40 کروڑ روپے سے 30 فیصد بڑھ کر مالی سال 2021 میں 6 کھرب 57 ارب 20 کروڑ روپے ہوگئے۔

  • مالی سال 2022 کے جولائی تا مارچ کے دوران آئی ٹی کی برآمدات میں 29.26 فیصد کی شرح نمو کے ساتھ ایک ارب 94 کروڑ 80 لاکھ ڈالر تک کا اضافہ دیکھا گیا۔

  • اس دوران تیل کا درآمدی بل 95.9 فیصد اضافے کے ساتھ 17 ارب 3 کروڑ ڈالر رہا۔

  • جولائی تا فروری دوران تقریباً 76 فیصد گیس مقامی طور پر پیدا ہوئی جبکہ 24 فیصد گیس درآمد کی گئی۔

  • جولائی تا اپریل کے دوران بجلی کی پیداوار میں قابل تجدید توانائی کا حصہ 2.4 فیصد سے بڑھ کر 3.02 فیصد ہوا۔

  • رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ میں بجلی کے استعمال میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی، بجلی کے استعمال میں گھریلو صارفین 47 فیصد کے ساتھ پہلے، صنعت 28 فیصد کے ساتھ دوسرے جبکہ زراعت کا شعبہ 9 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024