• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

سندھ ہائی کورٹ کی دعا زہرہ کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی اجازت

شائع June 8, 2022
پولیس نے سخت سیکیورٹی میں دعا زہرہ اور اس کے شوہر ظہیر احمد کو عدالت میں پیش کیا — فوٹو: ڈان نیوز
پولیس نے سخت سیکیورٹی میں دعا زہرہ اور اس کے شوہر ظہیر احمد کو عدالت میں پیش کیا — فوٹو: ڈان نیوز

سندھ ہائی کورٹ نے کراچی سے لاپتا ہو کر بہاولنگر سے بازیاب ہونے والی دعا زہرہ کے کیس کو نمٹاتے ہوئے اسے شوہر کے ساتھ رہنے یا والدین کے ساتھ جانے سے متعلق اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی اجازت دے دی۔

سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا، عدالتی حکم نامہ 3 صفحات پر مشتمل ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ تمام شواہد کی روشنی میں اغوا کا مقدمہ نہیں بنتا۔

تحریری حکم نامے میں سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

حکم نامے میں عدالت نے بتایا ہے کہ عدالت بیان حلفی کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دعا زہرہ اپنی مرضی سے شوہر کے ساتھ رہنا چاہے یا اپنے والدین کے ساتھ جانا چاہے تو جا سکتی ہے، وہ اپنے اس فیصلے میں مکمل آزاد ہے۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں کیس کے تفتیشی افسر کو کیس کا ضمنی چالان جمع کرانے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ عمر کے تعین سے متعلق میڈیکل سرٹیفکیٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں ریکارڈ کرایا گیا بیان بھی پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ دعا زہرہ کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کرنا سندھ حکومت کی صوابدید ہے، ٹرائل کورٹ قانون کے مطابق کارروائی جاری رکھے، اس حکم نامے کے ساتھ ہی عدالت نے دعا زہرہ کی بازیابی سے متعلق درخواست نمٹا دی۔

'بچی گھر واپس جانا چاہتی ہے'، دعا سے ملاقات کے بعد والدین کا دعویٰ

قبل ازیں دعا زہرہ کے والدین نے عدالت میں بیٹی سے ملاقات کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ بچی نے گھر واپس جانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

آج ہونے والی سماعت میں پولیس نے سخت سکیورٹی میں دعا زہرہ اور اس کے شوہر ظہیر احمد کو عدالت میں پیش کیا۔

سماعت کے دوران دعا زہرہ کے والد نے بیٹی سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا جس پر عدالت نے دعا زہرہ کے والدین کو بیٹی سے ملنے کی اجازت دے دی۔

چیمبر میں بیٹی سے ملاقات کے بعد دعا کے والدین نے دعویٰ کیا کہ بچی گھر واپس جانا چاہتی ہے اور جج کے سامنے بیان بھی ریکارڈ کرانا چاہتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ: عمر کے تعین کیلئے دعا زہرہ کا میڈیکل ٹیسٹ کروانے کا حکم

دعا کے والد مہدی کاظمی نے کہا کہ پولیس نے بچی کو والدین سے مزید ملاقات سے روک دیا ہے، ہم نے جج سے گزارش کی کہ بچی کا دوبارہ بیان ریکارڈ کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جج صاحب نے بھی کہا کہ بیان ایک ہی بار ہوتا ہے، مجھے انصاف کے دروازوں پر انصاف نہیں ملا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے تمام قانونی دستاویزات بنوائیں، اگر یہ قانونی دستاویزات ٹھیک نہیں ہیں تو انہیں آگ لگا دوں۔

دعا زہرہ کے والد نے وفاقی حکومت، ڈی جی رینجرز اور دیگر سے انصاف کی اپیل کی۔

درخواست پر آج ہی کوئی حکم نامہ جاری کریں گے، عدالت

سماعت کے آغاز پر دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی کے وکیل الطاف کھوسو نے کہا کہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر میڈیکل کرانے کا حکم دیا تھا، ہم نے کچھ دستاویزات پیش کرنی ہیں۔

جسٹس جنید غفار نے کہا کہ آپ نے جو بھی پیش کرنا ہے ٹرائل کورٹ میں پیش کریں، ہمارے پاس صرف بچی کی بازیابی کا کیس تھا جو اب بازیابی ہو گئی ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی سے لاپتا دعا زہرہ کو بہاولنگر سے بازیاب کرا لیا گیا

سماعت کے دوران دعا زہرہ کے والد نے مؤقف اپنا کہ میری شادی کو اتنا عرصہ نہیں ہوا، میری بیٹی کی عمر 17 سال کیسے ہے، ہم نے اس میڈیکل رپورٹ کو چیلنج کیا ہے۔

جسٹس جنید غفار نے ریمارکس دیے کہ ہم قانون کے مطابق کیس سنیں گے۔

پراسکیوٹر جنرل سندھ نے کہا کہ کیس نمٹا دیا جائے اور باقی معاملات کے لیے کیس ٹرائل کورٹ بھیج دیں۔

انہوں نے کہا کہ 10 جون کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کرنا ہے، کسٹڈی پنجاب پولیس کے حوالے کی جائے تاکہ لاہور ہائی کورٹ میں پیش کیا جا سکے۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ کیس یہاں چل رہا ہے، عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بچی کا بیان ہو چکا ہے، آپ جذباتی کیوں ہو رہے ہیں؟

یہ بھی پڑھیں: دعا زہرہ کی لاہور سے ’ملنے‘ کی خبر پر لوگوں کے تبصرے

عدالت نے دعا زہرہ کے والد سے استفسار کیا کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ اس پر مہدی کاظمی نے کہا کہ میری شادی کو 17 سال ہوئے ہیں اور میری بچی کی عمر 17 سال کیسے ہوسکتی ہے؟

جسٹس جنید غفار نے جواب دیا کہ ہمارے پاس دعا زہرہ کا بیان ہے، ہم نے سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کو دیکھنا ہے، آپ ملاقات کرلیں ان سے، ہم چیمبر میں ملاقات کراتے ہیں۔

عدالت نے تمام افراد کی تلاشی لینے اور دعا کی چیمبر میں والدین سے ملاقات کی ہدایت کی۔

عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ 10 منٹ کے لیے دعا کی والدین سے چیمبر میں ملاقات کرائی جائے۔

عدالت کی جانب سے مزید کہا گیا کہ درخواست پر آج ہی کوئی حکم نامہ جاری کریں گے۔

دریں اثنا وکیل الطاف کھوسو نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے میڈیکل رپورٹ کو چیلنج کر رکھا ہے، دعا زہرہ کی میڈیکل رپورٹ بدنیتی پر مبنی ہے۔

مزید پڑھیں: دعا زہرہ کے طبی معائنے کیلئے دائر پولیس کی درخواست مسترد

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس دعا زہرہ کی عمر سے متعلق تمام دستاویزات موجود ہیں، میڈیکل بورڈ تشکیل ہی نہیں دیا گیا، ایک جونئیر ڈاکٹر نے رپورٹ تیار کی ہے، اب فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت میں دعا زہرہ کی عمر کے تعین کے لیے میڈیکل ٹیسٹ کرانے کا حکم دیا گیا تھا، تحریری حکم نامے میں عدالت نے دعائے زہرا کی عمر کی تصدیق کے لیے اوسیفیکشن ٹیسٹ کرانے کا حکم دیا۔

حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ کیس کے تفتیشی افسر 2 روز میں دعا زہرہ کی عمر کے تعین سے متعلق ٹیسٹ کرا کر رپورٹ پیش کریں، ساتھ ہی دعا زہرہ کو شیلٹر ہوم بھیجنے کا حکم دیا جاتا ہے۔

بعد ازاں دعا زہرہ کی میڈیکل رپورٹ میں اس کی عمر 16 سے 17 سال بتائی گئی۔

دعا زہرہ کی بازیابی

یاد رہے گزشتہ ماہ کراچی کے علاقے ملیر سے لاپتا ہونے والی لڑکی دعا زہرہ کو 5 جون کو بہاولنگر سے بازیاب کرا لیا گیا تھا۔

اس سلسلے میں ایس ایس پی زبیر نذیر شیخ کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے دعا زہرہ کے شوہر کو بھی حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا ہے، دونوں کو قانونی تقاضے مکمل کرنے کے بعد کراچی لایا جائے گا۔

خیال رہے کہ عدالتی احکامات کے بعد سندھ پولیس نے دعا زہرہ کی بازیابی کے لیے وزارت داخلہ سے مدد مانگی تھی، جبکہ سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کو 10 جون کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

30 مئی کو عدالت نے کراچی سے لاپتا ہوکر صوبے سے باہر پہنچنے والی دعا زہرہ کی والدہ کی جانب سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران لڑکی کی بازیابی میں ناکامی پر عدالت نے آئی جی سندھ کو عہدے سے ہٹاتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو دوسرا افسر تعینات کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ صوبے کی پولیس اتنی نااہل ہوچکی ہے، عدالت 21 دن سے احکامات جاری کر رہی ہے لیکن بچی کو بازیاب نہیں کروایا گیا، پولیس بچی کو بازیاب نہیں کروائے گی تو کون بچی کو بازیاب کروائے گا۔

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے تھے کہ ہم نے آخری موقع دیا تھا لیکن بچی بازیاب نہیں ہوئی ہے، ہم آئی جی سندھ کو شوکاز نوٹس جاری کریں گے، اگر بچی کو 10 جون تک پیش کردیا گیا تو شوکاز نوٹس واپس لے لیں گے۔

بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جاری تحریری حکم نامے میں عدالت نے آئی جی سندھ کامران افضل سے چارج لینے کا حکم دیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ہدایت جاری کی تھی کہ آئی جی سندھ کا چارج کسی اہل افسر کو دیا جائے۔

دعا زہرہ کیس

خیال رہے کہ 16 اپریل کو کراچی کے علاقے گولڈن ٹاؤن سے 14 سالہ لڑکی دعا زہرہ لاپتا ہوگئی تھی جس کے بعد پولیس نے اس کی تلاش کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے بھی مارے تھے، تاہم پولیس دعا زہرہ کو تلاش کرنے میں ناکام رہی تھی۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دعا زہرہ کے اغوا کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی کراچی سے تفیصلی رپورٹ طلب کی تھی۔

دعا زہرہ لاپتا کیس کے باعث سندھ حکومت کو سخت تنقید کا سامنا تھا اور مختلف حلقوں کی جانب سے صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہے تھے۔

تاہم 25 اپریل کو پریس کانفرنس کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تصدیق کی تھی کہ دعا زہرہ کا سراغ لگا لیا گیا ہے، وہ خیریت سے ہیں۔

26 اپریل کو پنجاب پولیس کو دعا زہرہ اوکاڑہ سے مل گئی تھیں، جس کے بعد انہیں لاہور میں مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی پتا چلا تھا کہ دعا زہرہ نے ظہیر نامی لڑکے سے شادی کرلی ہے۔

مجسٹریٹ نے دعا زہرہ کو دارالامان بھیجنے کی پولیس کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں آزاد شہری قرار دیا تھا۔

علاوہ ازیں دعا زہرہ نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’میرے گھر والے زبردستی میری شادی کسی اور سے کروانا چاہتے تھے، مجھے مارتے پیٹتے تھے، مجھے کسی نے بھی اغوا نہیں کیا، میں اپنی مرضی سے گھر سے آئی ہوں اور اپنی پسند سے ظہیر سے شادی کی ہے‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ میرے اہل خانہ میری عمر غلط بتا رہے ہیں، میں 14 سال کی نہیں بلکہ بالغ ہوں، میری عمر 18 سال ہے۔

ضلع کچہری لاہور میں دعا زہرہ نے اپنے والد اور کزن کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا، جس میں انہوں نے اپنی مبینہ پسند کی شادی کے بعد والد پر لاہور میں واقع گھر میں گھسنے اور انہیں اغوا کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

مجسٹریٹ نے والد کے خلاف شواہد پیش کرنے کے لیے دعا زہرہ کو 18 مئی کو عدالت میں طلب کیا تھا۔

تبصرے (2) بند ہیں

akbar Jun 08, 2022 02:34pm
ریاستی اداروں کو کورٹ میرج کے لئے قوانین تیار کرنے ہونے گے، کورٹ میرج کے لئے کم از کم عمر 21 سال ہونی چاہئے ۔ یہ جو بارہ ، چودہ سال کے لڑکے ، لڑکی کی شادی کو جائز قرار دیاجاتا ہے اس پر تمام مذہبی ذمہ داروں کو دوبارہ غور کرنا چاہئے ۔
Kashif Jun 08, 2022 07:35pm
میں چالیس سال سے اوپر کا ہوں لیکن ابھی تک 29 دانت ہی نکلے ہیں ، کیا عدالت میرے بتیس دانت والی اولاد سے کم عمر قرار دے سکتی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024