آئندہ 12 ماہ کے دوران پاکستان کو 41 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی، وزیر خزانہ
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا ہے کہ آئندہ 12 ماہ کے دوران ملک کو 41 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی اور یقین ہے کہ حکومت اس ضرورت کو پورا کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
اسلام آباد میں بزنس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ جب میں نے وزیر خزانہ بننے سے قبل بریفنگ لی تھی اس وقت ہمارا بجٹ خسارہ 5 ہزار 600 ارب روپے تھا جسے ہم کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت کے 5 سال میں اوسطاً خسارہ ایک ہزار 600 تھا، اگلے سال پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں جو خسارہ آیا وہ جی ڈی پی کا 9.1 فیصد ہے، آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے میں یہ کہا گیا تھا کہ ہم پرائمری خسارہ 25 ارب روپے کا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم آئے تو ہمیں یہ بتایا گیا کہ متوقع خسارہ ایک ہزار 332 ارب روپے ہے، اس خسارے کی وجہ سےقرضوں میں اضافہ ہوا، مسلم لیگ (ن) کے دور میں اوسطاً قرضہ 2 ہزار 132 ارب قرض تھا، جبکہ پی ٹی آئی نے 5 ہزار 170 ارب روپے کا قرضہ لیا ہے۔
ان کا کہنا ہمارے دور میں جو قرضہ لیا گیا اس سے ترقیاتی منصوبے نمٹائے گئے، لیاقت علی خان سے شاہد خاقان عباسی تک جتنے وزیر اعظم انہوں نے مجموعی طور پر جتنا قرض لیا اتنا قرض صرف عمران خان نے لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سال ڈیبٹ سروسنگ کے 3ہزار 900 ارب روپے رکھے گئے ہیں، مئی میں جب ہم ایک ہزار 62 ارب روپے گردشی قرضے تھے، آج پاور سیکٹر کے گردشی قرضے 3ہزار 500 ارب روپے سے زیادہ ہے۔
رواں سال پاکستان نے پاور سیکٹر میں ایک ہزار 72 ارب روپے سبسڈی دی ہے ، امکان ہے کہ پاور سیکٹر میں ایک ہزار 100 ارب روپے کی سبسڈی فراہم کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ 26 روپے کا فی یونٹ فراہم کیا جارہا ہے، جس میں 16 روپے حکومت بھر رہی ہے، پیٹرولیم سیکٹر میں 81 ارب روپے کی سبسڈی جس میں 400 ارب روپے کا گردشی قرضے بڑھ گئے ہیں، گیس سیکٹر کے قرضے بھی ایک ہزار 500 ارب روپے ہوگئے ہیں۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہ جو پیسے ہمیں واپس کرنے ہیں ان کی مجموعی رقم 21 ارب ڈالر ہے، میری پیش گوئی ہے کہ اس سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 12 ارب ڈالر ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ماسکو کے ساتھ پٹرولیم ڈیل کے لیے حماد اظہر نے 30مارچ کو تیل کے لیے روس کوخط لکھا، لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں اآیا۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی وزیر اعظم کے لیے بہت مشکل فیصلہ تھا کہ دو بار 30 روپے پٹرول کی قیمت بڑھائے، لیکن ہم نے مشکل فیصلے لیے اور آئندہ بھی لیں گے، ہمیں مشکل حالات میں ملک ملا ہے مگر ہم اس کو اچھے حالات میں چھوڑ کر جائیں گے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ سابقہ حکومت کے معاہدے پر چلتا تو پٹرول کی قیمت آج 300 روپے ہوتی، جب عمران خان حکومت کو پتا چلا کہ ان کی حکومت جا رہی ہے، تب انہوں نے سبسڈی دی، پی ٹی آئی حکومت کا روس سےآئل لینے کا ان کا کوئی چانس نہیں تھا۔
مفتاح اسماعیل نے مزید کہا کہ آج چینی اور گندم درآمد کی جا رہی ہے جب کہ ہماری حکومت تھی تو تب ہم گندم اور چینی برآمد کررہے تھے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت پٹرولیم کے شعبے میں 81 ارب روپے اور توانائی کے شعبے میں 1100 ارب کی سبسڈی دے گی۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ کم آمدن والوں کو پورے سال پیسے دیں گے۔ آئندہ سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1200ارب لائیں گے۔ آئندہ سال 21ارب ڈالر قرض واپس کرناہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک میں پاور سیکٹر میں 1600 ارب کا نقصان ہو رہا ہے، ہماری پالیسی ہے آئی ٹی، زراعت، صنعت سمیت تمام سیکٹرز کو ساتھ لے کر چلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ روزگار دینے کے لیے کم از کم 6 فیصد معاشی نمو ہونی چاہیے، پاکستان میں ہر سال 20لاکھ لوگ لیبر مارکیٹ کو جوائن کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم غریب لوگوں کو ٹارگٹڈ سبسڈی دے رہے ہیں، جن کی آمدنی 40 ہزار سے کم ہے ان کو سبسڈی دینے کے لیے پروگرام شروع کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سب وزرائے اعظم نے مل کر 24ہزار ارب قرض لیا۔ ایک ہزار300ارب کا پرائمری ڈیفیسٹ ہوا، کہا گیا پرائمری ڈیفسٹ 25 ارب کا کریں گے۔ ملک مشکل حالات سے گزررہاہے،سب مل کر مسائل پر قابو پائیں گے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ملک کی ترقی کے لیے ہمیں اپنی برآمدات کو بڑھانا ہوگا، ایکسپورٹس کو بڑھائے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بڑے سرمایہ کار آئے اور کہا کہ انڈسٹری پر ٹیکس نہیں بڑھائیں، میں نے کہا کہ ٹیکس نہیں بڑھائیں گے بلکہ ٹیکس کم کردیں گے مگر ہمیں سرمایہ اور صنعت کار بتائیں کہ وہ ہمارے ملک کے لیے ایکسپورٹ کیا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت میں ایکسپورٹ میں اضافہ نہیں ہوا تھا، ہم وہیں ایکسپورٹ چھوڑ کر گئے تھے جہاں ہمیں ملی تھی مگر اس مرتبہ ہم ایکسپورٹ میں 20 فیصد اضافہ کریں، اس سلسلے میں مزید اقدامات کریں گے تاکہ سرمایہ کاروں کو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں مسابقتی ماحول فراہم کیا جائے، ہم ایکسپورٹ انڈسٹری کو مراعات اور سہولیات دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ترقی کے لیے اور اس کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے خسارے میں چلنے والے کچھ اداروں کی جلد نجکاری کرنی ہوگی۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ شہباز شریف اکنامک گورنسس کی بہتری کی بات کرتے ہیں، ہم کھاد بنانے والی کمپنیوں کو نہیں بلکہ کسانوں کو سبسڈی دیں گے اور اس سلسلے میں بھی ایک فول پروف نظام بنایا جائے گا۔