پی ٹی آئی کا ریفرنسز پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان ممکنہ طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے اپنی پارٹی کے 20 ارکان قومی اسمبلی کو ڈی سیٹ کرنے کے ریفرنسز مسترد کرنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 11 مئی کو ایک متفقہ فیصلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی کی طرف سے اس کے 20 اراکین قومی اسمبلی کے خلاف بھیجے گئے نااہلی ریفرنسز کو اس بنیاد پر مسترد کر دیا تھا کہ پارٹی سے انحراف کا ارتکاب کرنے والے اراکین قومی اسمبلی سے متعلق آئین کے آرٹیکل 63-اے ان قانون سازوں پر لاگو نہیں ہوگا جنہوں نے اپریل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی دوڑ میں اپنی پارٹی کا ساتھ نہیں دیا تھا۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کے سابق اراکین اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری
ایک باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اس ہفتے سپریم کورٹ میں وکیل چوہدری فیصل حسین کی جانب سے اپیلیں دائر کیے جانے کی توقع ہے جس میں عدالت عظمیٰ سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی جائے گی۔
اس بات کا امکان ہے کہ پارٹی ایک اضافی درخواست لا سکتی ہے کہ الیکشن کمیشن نے ان کی بات ہی نہیں سنی۔
پی ٹی آئی کی جانب سے سپریم کورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیے جانے کا امکان ہے کہ الیکشن کمیشن نے شواہد کو ریکارڈ کیے بغیر اس معاملے کا فیصلہ کیا اور اس نے اس حقیقت کا نوٹس نہیں لیا کہ متعلقہ اراکین قومی اسمبلی نے پارٹی کی جانب سے انہیں جاری کیے گئے شوکاز نوٹسز کا جواب نہیں دیا۔
یہ اپیل ایک ایسے موقع پر کی جا رہی ہے جب پی ٹی آئی سے منحرف اور پنجاب سے سابق رکن صوبائی اسمبلی زہرہ بتول کی جانب سے گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کے 20مئی کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا جس میں مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کے لیے ووٹ دینے والے پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کو کمیشن نے ڈی سیٹ کردیا تھا۔
30 مئی کو وکیل عبدالشکور پراچہ کے ذریعے دائر کی گئی درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی کہ وہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دے جس میں انہیں آئین کے آرٹیکل 63-اے کے تحت انحراف کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے منحرف اراکین پنجاب اسمبلی کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری
آئینی شق انحراف کی بنیاد پر نااہلی کا تعین کرتی ہے اور اس کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب کوئی قانون ساز کے اپنی سیاسی جماعت سے استعفیٰ دے دیتا ہے یا کسی دوسرے پارلیمانی بلاک میں شامل ہوتا ہے یا ووٹ دیتا ہے، یا وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخاب یا ان کے خلاف عدم اعتماد یا اعتماد کے ووٹ کے دوران اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ کسی ہدایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ووٹنگ سے باز رہتا ہے
تاہم، شق کے تحت پارٹی سربراہ متاثرہ رکن کو اس عمل کی وجہ بتانے کے لیے شوکاز جاری کر سکتے ہیں کہ اس کے خلاف انحراف کی کارروائی کیوں نہ کی جائے۔
اعلامیہ موصول ہونے پر متعلقہ ایوان کے پریذائیڈنگ افسر کو دو دن کے اندر الیکشن کمیشن کے سامنے اعلامیہ پیش کرنا ہوگا، کمیشن کو اس کی وصولی کے 30 دنوں کے اندر ریفرنس کی منظوری یا دوسری صورت میں فیصلہ کرنا ہوگا اور اگر الیکشن کمیشن کسی منحرف قانون ساز کے خلاف رولز دیتا ہے، تو فرد ایوان کا رکن نہیں رہے گا اور نشست خالی ہو جائے گی۔
لیکن متعلقہ فرد ایک ماہ کے اندر الیکشن کمیشن کے کے اعلامیے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کر سکتا ہے، عدالت کو اپیل دائر کرنے کی تاریخ سے 90 دنوں کے اندر اس معاملے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
کمیشن نے پی ٹی آئی کے ریفرنسز کو مسترد کرتے ہوئے کمیشن نے اس کی مزید شواہد اور اس کے دو رہنماؤں شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کے بیانات ریکارڈ کرنے کی درخواست بھی مسترد کر دی تھی۔