جزلان قتل کیس، ایک اور ملزم ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر نے نو جوان طالب علم جزلان فیصل کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں زیر حراست ایک اور ملزم کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
ملزم حسنین فیض کے ساتھ اس کے بھائیوں عرفان فیض، احسن فیض اور ان کے دوست انشال کے خلاف 25 مئی کو بحریہ ٹاؤن کراچی میں معمولی جھگڑے کے دوران جزلان فیصل کو گولی مار کر ہلاک کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
پیر کے روز تفتیشی افسر نے ملزم احسن فیض کو جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر فرقان کریم کے روبرو پیش کیا اور تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ حاصل کیا۔
یہ بھی پڑھیں: عدالت نے جزلان قتل کیس میں نامزد ملزم کو بچہ جیل بھیج دیا
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ مبینہ ملزم کو اتوار کو گرفتار کیا گیا تھا، ملزم کو ریمانڈ پر تحویل میں لینے کی ضرورت ہے تاکہ اس سے فرار ہونے والے بھائی عرفان فیض کا پتا لگانے کے لیے پوچھ گچھ کی جائے، ملزم عرفان فیض گرفتاری سے بچنے والا کیس کا آخری ملزم ہے۔
تفتیشی افسر کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر نے ملزم کو ایک دن کے لیے پولیس کی تحویل میں دیتے ہوئے آئی او کو ہدایت کی کہ ملزم کو تفتیشی رپورٹ کے ساتھ آئندہ تاریخ پر عدالت میں پیش کیا جائے۔
واضح رہے کہ ہفتے کے روز عدالت نے مبینہ مرکزی ملزم حسنین فیض کو کم عمر ہونے کی وجہ سے بچہ جیل بھیج دیا تھا، جب کہ ملزم کا دوست انشال، جو کہ ایک ریٹائرڈ میجر کا بیٹا بتایا جاتا ہے، پہلے ہی پولیس کی حراست میں ہے۔
یہ بھی پڑھیں : 19 سالہ جزلان کے قتل میں ملوث ایک اور ملزم گرفتار
مرکزی ملزم حسنین کے والد فیض محمد خان کو بھی قتل کیس میں گرفتار کیا گیا تھا کیونکہ ان کا لائسنس یافتہ اسلحہ مبینہ طور پر اس جرم میں استعمال ہوا تھا۔
پولیس کے مطابق حسنین فیض نے جزلان فیصل کے ساتھ جھگڑا کیا تھا، انسٹی ٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ مینجمنٹ اکاؤنٹس (آئی سی ایم اے) کے طالبعلم جزلان فیصل نے ملزمان کو لاپرواہی سے گاڑی چلانے سے روکا تھا جس کی وجہ سے ملزمان نے ان کا پیچھا کیا۔
ملزمان کی جانب سے ’ایفل ٹاور بحریہ ٹاؤن‘ کے قریب کار سے متاثرین پر فائرنگ کی جس میں جزلان فیصل جاں بحق جب کہ اس کا دوست زخمی ہوا تھا۔
مقتول جزلان فیصل کے چچا عارف صابر کی شکایت پر تھانہ سٹی پولیس گڈاپ میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (منصوبہ بندی کے تحت قتل کرنا ) 324 (اقدام قتل)، 34 (مشترکہ ارادہ) 109 ( جرم میں معاونت کی سزا) اور 114 (جرم کے ارتکاب کے وقت معاون کی موجودگی) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔