فافن نے بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات کو غیر متنازع، منظم قرار دے دیا
آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے نیٹ ورک (فافن) نے گزشتہ روز شائع ہونے والی ابتدائی رپورٹ میں کہا ہے کہ بلوچستان میں پہلے مرحلے میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات عدم جواز ہنگامہ آرائی اور بے ضابطگی کے باوجود بھی غیر متنازع اور منظم رہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فانن نے نشاندہی کی کہ’ وہ صوبہ جہاں سابقہ ادوار میں انتخابی سرگرمیاں سوالیہ نشان بنی رہی وہاں 29 مئی کو تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ہونے والی پولنگ اچھی جمہوریت اور ترقی کا اشارہ دیتی ہے‘۔
فافن کے فوکل پرسن حمید اللہ کاکڑ نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ تمام تر غیر قانونی طور پر ہنگامہ آرائی اور بے ضابطگی کے باوجود انتخابات بڑی حد تک پُر امن، منظم تھے اور یہ کام بہتر طور پر سر انجام دیا گیا۔
تاہم، کچھ بڑے شعبے ہیں جہاں سختی سے قانون نافذ کرنے کی ضرورت ہے ان میں پولنگ اسٹیشنوں کے ارد گرد مہم چلانا اور کینوسنگ کرنا، پولنگ ایجنٹس نتائج کے فارم کی کاپیاں نہ دینا، شام 5 بجے کے بعد پولنگ اسٹیشن کے اندر موجود ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے کے قانونی ضابطے کی متضاد تعمیل اور ووٹرز کی رازداری مسائل شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: بلوچستان: بلدیاتی انتخابات میں ایک ہزار 584 امیدوار بلا مقابلہ منتخب
خیال رہے بلوچستان کے 34 میں سے 32 اضلاع میں 29مئی کو بلدیاتی انتخابات منعقد کروائے گئے تھے جس میں آزاد امیدواروں نے 4 ہزار 456 نشستوں میں سے ایک ہزار 882 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ جمیعت علمائےاسلام (ف) اور برسرِ اقتدار عوامی نیشنل پارٹی (بی اے پی) نے بالترتیب469 اور 303 نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکی تھی۔
انتخابات کے دوران ہنگامہ آرائی اور تشدد کے باوجود ووٹ دینے والوں کا تناسب ماضی کے برعکس خاصہ زیادہ دیکھائی دیا، اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے اسے ’حوصلہ افزا ‘ اور ’جمہوریت کےلیے اچھا‘ دیا گیا تھا۔
اندرونِ بلوچستان سے موصول ہونے والے رپورٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف نوجوان مرد بلکہ خواتین ووٹرز بھی پولنگ کے عمل میں درلچسپی لے رہی تھیں۔
چیف سیکریٹری عبدالعزیز عقیلی نے تصدیق کی تھی کہ بلوچستان میں ووٹنگ کا مجموعی ٹرن آؤٹ 50 سے 60 فیصد رہا جو جمہوریت کے لیے بہت حوصلہ افزا اور اچھا ہے۔
ایک سینیئر عہدیدار نے دعویٰ کیا تھا کہ بہتر ٹرن آؤٹ آگاہی پروگرامز کا نتیجہ ہے، یہ پروگرامز الیکشن سے قبل عورت فاؤنڈیشن اور سول سوسائٹی کے اراکین کے تعاون سے منعقد کیے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں آزاد امیدواروں کی برتری
سیاسی تجزیہ کاروں خیال تھا کہ شہری بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشنز کا رخ کریں گے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ان کے منتخب نمائندے ان گھروں پر ان کے مسائل حل کریں گے۔
سابق ناظم اسلم رند نے ڈان کو بتایا تھا کہ ’ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی شہریوں سے رابطہ نہیں کرتے لہٰذا شہری چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل کو مقامی سطح پر حل کیا جائے‘۔
انتخابات میں بی این پی عوامی جو بی اے پی کی زیر قیادت حکومت کی اتحادی ہے، بلدیاتی 68 سیٹیں حاصل کر سکی تھی جبکہ پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این کی کارکردگی بھی متاثر کن نہیں رہی، انہوں بالترتیب 71 اور 20 نشستیں حاصل کی تھیں۔
نواب اکبر بگٹی کے دور میں جے ڈبلیو پی صوبے کی حکمران جماعت تھی وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے، رواں سال ہونے والے بلدیاتی انتخاب میں صرف 19 سیٹیں ہی حاصل کر پائی تھی۔
گوادر حقوق تحریک نے ماہی گیروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز نے حقوق کے لیے اپنے حالیہ احتجاج کا فائدہ اٹھایا اور گوادر، پسنی، اورماڑہ، سوربندر اور پشکان کے ساحلی علاقوں میں خواتین سمیت ووٹرز کو راغب کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔