لانگ مارچ میں عدالتی حکم عدولی ہوئی یا نہیں؟ آئی ایس آئی و دیگر سے جواب طلب
سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کارکنوں کے لانگ مارچ کے حوالے سے اسلام آباد بار کونسل کی درخواست نمٹانے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے اور عدالتی حکم کی خلاف ورزی کے تعین کے لیے آئی ایس آئی اور دیگر اداروں سے ایک ہفتے میں جواب طلب کر لیا ہے۔
سپریم کورٹ نے احتجاج سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر 14 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جسے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔
مزید پڑھیں: عمران خان نے لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کردیا
جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا کہ اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں شکایت کی گئی تھی کہ 25مئی کو مظاہرین کی اسلام آباد آمد کو روکنے کے لیے وفاقی حکومت نے ہائی وے اور سڑکیں بند کر دی تھیں۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے پرامن احتجاج کی یقین دہانی کے بعد تین رکنی بینچ نے اعلیٰ حکام کو احتجاج کے مقام کو تیار کرنے اور سیکیورٹی کی فراہمی کی ہدایت کی تھی جبکہ احتجاج کرنے والے تمام فریقین اور مظاہرین کو بھی پرامن رہنے کی ہدایت کی گئی۔
اس کے بعد 25مئی کو رات ساڑھے دس بجے اٹارنی جنرل آف پاکستان نے درخواست دائر کر کے الزام عائد کیا کہ پی ٹی آئی قیادت بالخصوص چیئرمین عمران خان نے عدالت کی کرائی گئی یقین دہانیوں کے باوجود اپنی کے کارکنان اور حامیوں کو اسلام آباد مارچ کرنے اور دارالحکومت کے ریڈ زون میں واقع ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت کی۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ بابر اعوان اور فیصل فرید نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ ان کی پارٹی کی ریلی میں سڑکیں بلاک کی جائیں گی اور نہ ہی عوام کو اس کی وجہ سے کسی قسم کی مشکلات پیش آئیں گی اور پرامن احتجاج یقینی بناتے ہوئے سرکاری و نجی املاک کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا جس کے بعد آئی جی اسلام آباد کو ریلی کے انتظامات کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
عدالتی فیصلے کے مطابق اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عمران خان نے اسلام آباد کے علاقے ایچ۔9/ جی۔9 میں ریلی کے وعدے کے باوجود اپنے حامیوں اور کارکنوں کو ریڈ زون میں واقعے ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت کردی اور عدالت میں اس سلسلے میں عمران خان کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی چلائی گئی جس میں انہیں اپنے کارکنوں کو ہدایت دیتے سنا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لانگ مارچ کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کو ملک بھر میں مقدمات کا سامنا
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان نے اپنے حامیوں کو عدالتی حکم کی عدولی کی دعوت دی جس کے نتیجے میں نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچا اور وہ تباہ ہو گئی، اسلام آباد کے بلو ایریا کی گرین بیلٹ میں کچھ درختوں کو آگ لگائی گئی، ہجوم کے پتھراؤ سے 31 پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور رات گئے آرٹیکل 245 نافذ کر کے فوج کو طلب کیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے عدالت سے درخواست کی کہ عدالت کو کرائی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی پر عمران خان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
اٹارنی جنرل کے مطابق اس کے بعد صبح عمران خان نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ کے بعد جناح ایونیو میں بیان جاری کیا کہ وہ ڈی چوک میں دھرنا جاری نہیں رکھیں گے اور حکومت کو چھ دن کا وقت دیا کہ وہ اسمبلیاں تحلیل کر کے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرے۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے عدالت کو جو یقین دہانی کرائی گئی تھی اس کا احترام نہیں کیا گیا اور یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مشتعل ہجوم کے اس غیر ذمے دارانہ عمل کی ذمے داری پی ٹی آئی کی سینئر قیادت پر عائد نہیں ہوتی۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ عدالتی احکامات کے بعدرونما ہونے والے واقعات کی جانچ اور تصدیق کی ضرورت ہے تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ عدالتی کو کرائی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی پر کس کے خلاف کارروائی کی جائے۔
مزید پڑھیں: کیا پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے دوران انٹرنیٹ سروسز واقعی معطل ہوئیں؟
عدالت نے اٹارنی جنرل کی جانب سے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف کارروائی کی استدعا پر آئی جی پولیس، چیف کمشنر اسلام آباد، ڈی جی آئی بی، ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکریٹری وزارت داخلہ سے سات سوالوں کے جواب طلب کرتے ہوئے ان سے ایک ہفتے میں جواب طلب کر لیا ہے۔
عدالت نے پوچھا ہے کہ عمران خان نے پارٹی ورکرز کو کس وقت ڈی چوک جانے کی ہدایت کی؟ پی ٹی آئی کارکنان کس وقت ڈی چوک میں لگی رکاوٹوں سے آگے نکلے؟۔
عدالت نے مزید پوچھا کہ کیا ڈی چوک ریڈ زون میں داخل ہونے والے ہجوم کی نگرانی کوئی کررہا تھا؟ اور کیا حکومت کی جانب سے دی گئی یقین دہائی کی خلاف ورزی کی گئی؟۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی سوال کیا کہ کتنے مظاہرین ریڈزون میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے اور ریڈ زون کی سیکیورٹی کے انتظامات کیا تھے؟۔
اس حوالے سے یہ بھی پوچھا گیا کہ ایگزیکٹو حکام کی جانب سے سیکیورٹی انتظامات میں کیا نرمی کی گئی؟۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی خونی انقلاب اور خونی لانگ مارچ کی پوری تیاری تھی، مریم اورنگزیب
اعلیٰ عدلیہ نے یہ سوال بھی کیا کہ اور کیا سیکیورٹی بیریئر کو توڑا گیا اور کیا مظاہرین یا پارٹی ورکر جی نائن اور ایچ نائن گراونڈ میں گئے تھے؟
اس کے علاوہ عدالت نے زخمی، گرفتار اور اسپتال میں داخل ہونے والے مظاہرین کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ تمام ثبوتوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے گا کہ عدالتی حکم کی عدولی ہوئی یا نہیں۔
متفقہ عدالتی فیصلے میں حکومت، پی ٹی آئی قیادت اور دیگر سیاسی جماعتوں کو پرامن سیاسی سرگرمیوں کاضابطہ اخلاق بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا گیا کہ پرامن احتجاج سب کا آئینی حق ہے مگر یہ ریاست کی اجازت کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے، ایسے احتجاج کی اجازت ہونی چاہیے یہاں تک کہ آرٹیکل 15 اور16 کے تحت پابندیاں لگانا ناگزیر نہ ہوجائے۔
عدلیہ نے واضح الفاظ میں کہا کہ کسی قانونی، معقول وجہ کے بغیر کسی کو بھی پرامن احتجاج کے حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا لیکن یہ سب حکومت کی اجازت کے بعد ہی ممکن ہے۔
عدالت نے کہا کہ تحریک انصاف کی قیادت اور مظاہرین نے احتجاج ختم کردیا تھا اور لانگ مارچ کے ختم ہونے کے بعد تمام شاہراوں کو کھول دیا گیا، آزادانہ نقل و حرکت میں کوئی رکاوٹ نہیں اور درخواست دائر کرنے کا مقصد پورا ہوچکا لہٰذا اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست کو نمٹایا جاتا ہے۔
پانچ رکنی لارجر بینچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی جانب سے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی گئی۔
مزید پڑھیں: عمران خان نے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی، عدالت فیصلے پر نظرثانی کرے، مریم نواز
انہوں نے لکھا کہ ’عدالتی فیصلے کے بعد عمران خان نے خطاب میں کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ کر دیا ہے اب کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہوگی اس لیے سارے پاکستانیوں سے کہہ رہا ہوں کہ آج شام اپنے شہروں میں بھی نکلیں۔ اور اسلام آباد اور پنڈی میں پوری طرح ڈی چوک پہنچنے کی کوشش کریں۔‘
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ عمران خان کی مذکورہ بالا تقریر کھلی عدالت میں پروجیکٹر کی اسکرین پر چلائی گئی اور اس کو دیکھتے ہوئے میری رائے ہے کہ یہ ثبوت اس بات کے لیے کافی ہے کہ بظاہر انہوں نے اس عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کی۔