’انصاف نہیں مل سکتا تو مجھے بھارت بھیج دیں‘ قانونی چارہ جوئی سے عاجز خاتون کا عدالت سے مطالبہ
تین دہائیوں سے 5 مرلہ زمین پر جاری قانونی جنگ سے عاجز آکر ایک خاتون نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد امیر بھٹی سے استدعا کی کہ ’اگر یہاں انصاف نہیں مل سکتا تو مجھے بھارت بھیج دیں‘۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیدہ شہناز نے بنیادی طور پر بہاولپور سے اپنا کیس مرکزی عدالت میں منتقل کرنے کی درخواست دائر کی تھی، درخواست گزار شیخوپورہ میں کرایے کے گھر میں مقیم ہے۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ اگر وہ بہاولپور میں کیس کی پیروی کریں گی تو ان کی زندگی کو جائیداد پر قبضہ کرنے والوں کی وجہ سے خطرہ ہوگا۔
اپنے کٹھن وقت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ 9 برس کی تھی جب مذکورہ اراضی پر قانونی چارہ جوئی کا آغاز ہوا تھا اب ان کی عمر 45 سال ہے۔
مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ کا کمپنی کو کار خریدار کو 'زر تلافی' ادا کرنے کا حکم
انہوں نے الزام عائد کیا کہ علاقے کے بارسوخ افراد نے ان کے گھر پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ گزشتہ 35 سال سے ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگنے پر مجبور ہیں۔
قانونی چارہ جوئی کی نہ ختم ہونے والے سلسلے سے عاجز آکر شہناز نے چیف جسٹس سے کہا کہ انہیں بھارت بھیج دیا جائے۔
چیف جسٹس نے درخواست کی منتقلی پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔
تاہم چیف جسٹس امیر بھٹی نے درخواست گزار کو یاد دہانی کروائی کہ عدالت کے پاس کسی کو بھارت کا ویزا جاری کرنے کا حکم دینے کے اختیارات نہیں ہیں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سیدہ شہناز کا کہنا تھا کہ ان کے آباؤ اجداد بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے، جب بھی عدالت ان کے حق میں کیس کا فیصلہ کرنے والی ہوتی ہے تو قابضین کیس کو طول دینے کی کوشش کرتے ہوئے اس سے اگلے فورم پر اپیل دائر کردیتے ہیں۔
جوڈیشل ایکٹی ویزم پینل (جے اے پی) کے چیئرمین ایڈووکیٹ اظہر صدیقی کا کہنا ہے کہ وہ خاتون کا کیس فلاح عامہ کی بنیاد پر لڑیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے جائیداد پر بھارتی دعوے کی تحقیقات کا حکم دے دیا
وکیل نے ڈان کو بتایا کہ یہ جائیداد کا معاملہ ہے، خاتون کے آبا اجداد والدین جالندھر سے پاکستان آئے تھے تو انہیں یہ مکان الاٹ کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ خاتون کے پڑوس میں رہنے والے ایک خاندان نے دھوکا دہی سے جائیداد اپنے نام کی۔
اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ سیٹلمنٹ کمشنر نے ایک فیصلے میں قرار دیا تھا کہ جواب دہندگان نے جائیداد پر قبضہ کرنے کے لیے خاتون کے خاندان کے ساتھ فراڈ کیا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ خاتون اپنے حق میں متعدد فیصلے جاری ہونے کے باوجود غیر قانونی قابضین سے مکان کا قبضہ واپس حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔