سیاسی جماعتیں بعد از انتخابات صورتحال کی تیاری کس طرح کریں؟
25 مئی کو سڑکوں پر حکومت اور اپوزیشن کے مابین ہونے والی جھڑپوں کے قابل افسوس مناظر دیکھنے کو ملے۔ ان جھڑپوں کی وجہ سے دارالحکومت میں افراتفری مچی رہی۔ عمران خان کے لانگ مارچ اور حکومت کی جانب سے طاقت کے استعمال کے درمیان دن بھر رونما ہونے والے واقعات نے لوگوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا سیاسی طوفان اب تھم چکا ہے یا یہ اب بھی کچھ ہلچل مچاتا رہے گا۔
جلد یا بدیر انتخابات کا اعلان تو ہونا ہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انتخابات کے اعلان سے موجودہ سیاسی بحران ختم ہوجائے گا اور کیا وہ استحکام حاصل ہوجائے گا جس کی شدید ضرورت ہے؟ یقینی طور پر آگے کا راستہ کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ انتخابات کے حوالے سے کسی ضابطہ اخلاق اور انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے پر اتفاق کرنا یقیناً مشکل ہوگا۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا مطالبہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر، جو کہ ایک آئینی عہدہ ہے کو تبدیل کیا جائے۔ یہ قابل تشویش بات ہے اور مستقبل کے حالات کا اشارہ ہے۔ تقسیم کے ایسے ماحول میں کہ جہاں جذبات غالب ہوں، کسی قسم کے سیاسی اصول و قانون پر اتفاق پیدا ہونا مشکل ہی نظر آتا ہے۔ کیا انتخابات میں حصہ لینے والی تمام ہی جماعتیں اس بات پر یقین کریں گی کہ انہیں یکساں مواقع دستیاب ہوں گے؟
اگر ہم مستقبل پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں کچھ اور اہم عوامل بھی نظر آتے ہیں۔ کیا تمام سیاسی کردار انتخابات کے تنائج کو تسلیم کریں گے؟ اور فرض کیجیے کہ اگر وہ تنائج کو تسلیم کر بھی لیتے ہیں تو ایک شدید انتخابی جنگ کے بعد کیا ہوگا؟ یہ بہت اہم سوال ہے کیونکہ بڑی سایسی جماعتوں کی جانب سے جو بیانات دیے جارہے ہیں وہ کسی ایسی مستحکم حکومت کے امکان کو ظاہر نہیں کررہے جس میں سیاسی مخالفین کے درمیان بھی ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہو۔ پھر بھی ماضی میں انتخابی نتائج کی نوعیت، ملک کے تنوع اورحکومت کے وفاقی کردار کی وجہ سے ہمارے سیاسی رہنماؤں اور ان کے پیروکاروں کو کچھ توقف کرکے معاملات پر سوچ بچار کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس کے لیے ملک کو چلانے اور جمہوری نظام کے انتظام کے حوالے سے رواداری اور 'دوسروں' کو برداشت کرنے کا طرز عمل اپنانے کی ضرورت ہوگی۔
مزید پڑھیے: مشکل وقت اب تحریک انصاف کے لیے نہیں، دیگر جماعتوں کے لیے ہے
اگر ہم گزشتہ 2 دہائیوں میں ہونے والے انتخابات پر نظر ڈالیں تو 2 اہم نکات سامنے آتے ہیں۔ پہلا نکتہ تو یہ کہ اب تک کوئی بھی جماعت پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی اور دوسرا نکتہ انتخابی نتائج کی مقامی نوعیت ہے۔ گزشتہ 4 انتخابات یعنی 2018ء، 2013ء، 2008ء اور 2002ء میں ہونے والے عام انتخابات میں کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی اور جیتنے والی جماعت کو حکومت سازی کے لیے ہمیشہ اتحاد بنانا پڑا ہے۔ یوں منقسم ووٹ اور معلق پارلیمنٹ اب معمول کی بات ہے۔
اتحادی حکومتوں کے معاملے میں ایک اہم چیز جیتنے والی جماعت کو حاصل ووٹ بھی ہوتے ہیں۔ کسی جماعت کی انتخابی حمایت کو جانچنے کے لیے اسے ملنے والی نشستوں سے آگے بڑھ کر دیکھنا فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ 2018ء میں ڈالے گئے ووٹوں میں سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو 31 فیصد ووٹ ملے جبکہ 2013ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو 32 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اسی طرح 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو بھی 31 فیصد ووٹ حاصل ہوئے جبکہ 2002ء میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کو 23 فیصد ووٹ ملے۔
مزید پڑھیے: نئی حکومت کے لیے ’آگے کنواں، پیچھے کھائی‘
یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان کے نظام انتخاب میں اگر کوئی جماعت سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی اور اس کے پاس اتنی نشستیں بھی ہوئیں جس کی مدد سے وہ اتحادی حکومت قائم کرلے تو ایسا اس نے ایک تہائی ووٹوں سے بھی کم ووٹ لےکر کیا ہے۔ یہ ایک تہائی حصہ بھی کل ووٹوں کے بجائے ڈالے گئے ووٹوں کا ہے۔ ان انتخابات میں ٹرن آؤٹ 53 فیصد (2018ء)، 51 فیصد (2013ء)، 44 فیصد (2008ء) اور 41 فیصد (2002ء) رہا۔ ووٹ نہ ڈالنے والے ووٹروں کی بڑی تعداد اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بڑا سیاسی میدان کسی بھی پارٹی کے قبضے میں نہیں ہے۔اس سے ہم جیتنے والی جماعت کے مینڈیٹ کو حقیقی تناظر میں رکھ سکتے ہیں۔
2002ء کے بعد ہونے والے انتخابات کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے نتائج علاقائی نوعیت کے تھے اور مختلف صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت بنی۔ 2018ء میں پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی، پی پی پی نے سندھ میں حکومت بنائی جبکہ پنجاب میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان مقابلہ سخت تھا تاہم پی ٹی آئی نے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اتحادی حکومت بنالی۔ 2013ء میں مسلم لیگ (ن) نے مرکز اور پنجاب میں حکومت بنائی جبکہ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور سندھ میں پی پی پی نے حکومت بنائی۔ 2008ء میں پی پی پی نے مرکز میں حکومت بنائی جبکہ چاروں صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومت تھی۔ اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، خیبر پختونخوا میں اے این پی، سندھ میں پی پی پی اور بلوچستان میں مسلم لیگ (ق) کی زیر قیادت اتحاد نے حکومت بنائی۔
اب سوال یہ ہے کہ اس سب کا کیا مطلب ہے اور مابعد انتخابات ملک کے مستقبل کے لیے اس سے کیا سبق ملتا ہے؟ پہلی بات تو یہ کہ پاکستان میں اتحادی حکومتوں کا دور ختم ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اگر آنے والے انتخابات میں ماضی جیسا رجحان ہی رہا تو پھر کوئی جماعت بھی اکثریت میں آئے اس کے پاس ووٹوں کی اکثریت نہیں ہوگی۔ یوں اس تصور کو رد کرنا ہوگا کہ جیتنے والی جماعت ہی عوام کی 'واحد نمائندہ جماعت' ہے اور یہ کہ کوئی اور اس ملک کی نمائندگی نہیں کرتا۔ اس کے بجائے یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ جس طرح اس جماعت کا مینڈیٹ درست ہے اسی طرح دیگر جماعتوں کا مینڈیٹ بھی درست ہے اور انہیں بھی سیاسی نظام کا حصہ بنانا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ حکمران جماعت اپنے عزائم اور طرز عمل میں عاجزی کا مظاہرہ کرے۔ 'مکمل' طاقت کا حصول اور اکیلے حکومت کرنے کا خیال غلط ہے۔ اگر آپ کی حمایت ایک تہائی ووٹوں سے بھی کم پر ٹکی ہو تو ایسی صورتحال میں ہر چیز میں قبضہ کرنے کا رویہ ایک غیر مستحکم اور غیر شراکتی طرز حکومت کی وجہ بنتا ہے۔
مزید پڑھیے: وہ عوامل جو عمران خان حکومت کے خاتمے کی وجہ بنے؟
ہمارا ملک کی وفاقی حقیقت کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی صوبائی حکومتوں کو صرف قبول ہی نہیں کرنا بلکہ عوامی مفاد میں ان کے ساتھ مل کر کام بھی کرنا ہے۔ ان تمام امکانات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہےکہ آئندہ انتخابات کا نتیجہ بھی علاقائی نوعیت کا ہوگا۔ یوں وفاق اور صوبوں کے درمیان ماضی کی تلخیوں سے آزاد مستحکم اور باہمی طور پر فائدہ مند تعلقات کے لیے ایک دوسرے کو قبول کرنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
معیشت کی نازک حالت سیاسی حریفوں کے لیے کم از کم مشترکہ بنیادوں پر مل کر کام کرنے کی ایک وجہ ہے۔ حکومتیں سیاسی نتائج اور اپوزیشن کی جانب سے انہیں استعمال کرتے ہوئے عوامی ردعمل کو ہوا دینے کے ڈر سے معاشی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے سخت فیصلوں سے گریزاں رہی ہیں۔ آج بھی معیشت کی نازک حالت اس ضرورت کو اجاگر کرتی ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما معیشت میں بہتری لانے کے حوالےسے پالیسی اقدامات کرنے کے لیے انتخابات کے بعد کوئی معاہدہ کریں۔ تمام سیاسی کرداروں کو چاہیے کہ وہ جتنا اپنی جماعت کے مفاد کے بارے میں سوچتے ہیں اتنا ہی ملک کے معاشی مستقبل کے بارے میں بھی سوچیں۔ معاشی استحکام کے بغیر سب کچھ بےکار ہوجائے گا۔ اگر سیاست اور معیشت آپس میں ٹکراتی رہیں تو ملک کا مستقبل کسی صورت تابناک نہیں ہوسکتا۔
یہ مضمون 30 مئی 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔