جبری گمشدگیوں سے متعلق ’پالیسی پر غور‘ کیلئے کمیٹی تشکیل
وفاقی حکومت نے جبری گمشدیوں سے متعلق پالیسی پر غور کرنے کے لیے 7 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی۔
وفاقی حکومت کی طرف سے یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے گمشدگیوں سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران حکومتی سربراہان سے سوال کیا تھا کہ اس بات کی وضاحت کریں کہ ’جبری گمشدگیاں‘ ریاست کی حکمت عملی کیسے بنی۔
وزارت داخلہ کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق کمیٹی کی سربراہی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ کریں گے، جبکہ اس کے دیگر اراکین میں وزیر داخلہ رانا ثنااللہ، وزیر برائے سماجی تحفظ و تخفیف غربت شازیہ مری، وزیر مواصلات اسعد محمود، وزیر دفاع پیداوار محمد اسرار ترین، وزیر بحری امور فیصل علی سبزواری اور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی آغا حسن بلوچ شامل ہیں۔
نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی کی سفارشات اور رپورٹ مزید غور کے لیے وفاقی کابینہ میں پیش کی جائیں گی، جبکہ وزارت داخلہ کمیٹی کو سیکریٹریل معاونت فراہم کرے گی۔
مزید پڑھیں: لاپتا افراد کیس: پرویز مشرف، جانشین حکمرانوں کو نوٹس
وزارت داخلہ نے مزید کہا کہ کمیٹی کو نامور ماہر قانون، انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں اور دیگر اراکین کو کمیٹی میں شامل کرنے کی اجازت ہوگی۔
واضح رہے کہ یہ پیشرفت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے اتوار کے روز 15 صفحات پر مشتمل ایک حکم نامے کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں وفاقی حکومت کو سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف اور ان کے بعد ملک کے چیف ایگزیکٹوز بشمول عمران خان اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف جبری گمشدگیوں سے متعلق پالیسی کی غیر اعلانیہ منظوری سے متعلق نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
عدالت نے یہ احکامات صحافی مدثر محمود نارو اور دیگر پانچ افراد کی گمشدگی سے متعلق کیس میں ان کی درخواستیں حتمی دلائل کے لیے مقرر ہونے کے بعد دیے، تاہم وفاقی حکومت نے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی۔
اپنے حکم میں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف اور تمام جانشین چیف ایگزیکٹوز یعنی سابقہ اور موجودہ وزرائے اعظم اپنے متعلقہ حلف نامے جمع کرائیں گے جن میں بتایا جائے کہ عدالت ان کے خلاف غیر اعلانیہ طور پر جبری گمشدگیوں سے متعلق پالیسی کی منظوری اور اس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص مسلح افواج کی شمولیت کی اجازت دے کر قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے پر آئین کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں کارروائی کا حکم کیوں نہیں دے سکتی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے اپنی سوانح حیات 'اِن دی لائن آف فائر' میں واضح اعتراف کیا ہے کہ ’جبری گمشدگیاں‘ ریاست کی غیر اعلانیہ پالیسی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے نشاندہی کی تھی کہ یہ ذمہ داری ہر حکومتی سربراہ پر ہے کہ وہ ایسے مفروضے کو رد کرے اور بتائے کہ ان پر سنگین غداری کے جرم میں مقدمہ کیوں نہیں چلایا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسلح افواج نے ملک کی سلامتی اور سالمیت کے لیے قربانیاں دی ہیں اور دیتے رہیں گے اور ہر شہری کو ان کا احترام کرنا چاہیے ورنہ ملک اور اس کے عوام کی سلامتی اور سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی۔
تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا حکم میں مزید کہا تھا کہ 'انسانی حقوق اور شہریوں کی آزادی کی خلاف ورزی کے مترادف کارروائیوں میں مسلح افواج کے ملوث ہونے یا اس کا تصور بھی قانون کی حکمرانی کو کمزور کرتا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ اگر لاپتا افراد کو بازیاب نہیں کیا گیا اور نہ ہی وفاقی حکومت کی جانب سے مؤثر اور قابل عمل اقدامات/فیصلے کیے گئے تو موجودہ اور سابق وزرائے داخلہ ذاتی طور پر پیش ہو کر وضاحت کریں گے کہ درخواستوں کا فیصلہ کیوں نہیں کیا جاسکتا اور ان پر معقول جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے کیوں کہ درخواست گزاروں کو ان کی شکایات کے حوالے سے ردعمل اور ہمدردی کی کمی کی وجہ سے ناقابل تصور اذیت اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔
مزید پڑھیں: پہلے ہی انتخابات کی طرف جانا چاہتے تھے، اتحادیوں کے کہنے پر حکومت میں آئے، رانا ثنااللہ
حکم نامے میں کہا گیا کہ 'اٹارنی جنرل عدالت کو مطمئن کریں گے کہ مستقبل میں مبینہ طور پر گمشدگیوں کی صورت میں وفاق اور متعلقہ صوبوں کے چیف ایگزیکٹوز کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا جاسکتا‘۔
دوران سماعت عدالت نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ لاپتا افراد کو مقررہ تاریخ (17 جون) کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے یا ریاست کی جانب سے مؤثر طریقے سے تفتیش اور ان کا پتا لگانے میں ناکامی کا جواز پیش کیا جائے۔