• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

سرکاری گاڑی میں تیل بھی اپنی جیب سے ڈلواتا ہوں، شہباز شریف

شائع May 28, 2022
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میرے اس فیصلے سے ہمارے خاندان کو دو ارب کا نقصان پہنچا— فوٹو: ڈان نیوز
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میرے اس فیصلے سے ہمارے خاندان کو دو ارب کا نقصان پہنچا— فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ میں مجنوں آدمی ہوں میں نے اپنا قانونی حق تنخواہ اور مراعات نہیں لیں، سرکاری گاڑی میں پیٹرول بھی اپنی جیب سے ڈلواتا ہوں۔

وزیراعظم اپنے بیٹے حمزہ شہباز کے ہمراہ منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں خصوصی عدالت میں پیش ہوئے جس کی سماعت جج اعجاز اعوان نے کی۔

دوران سماعت اپنا دفاع کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ساڑھے بارہ سالوں میں سرکار سے ایک دھیلہ نہیں لیا، 1997 سے لے کر آج تک ایک دھیلا سرکاری خزانے سے نہیں لیا۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف اور حمزہ شہباز ایف آئی اے چالان میں مرکزی ملزم نامزد

ان کا کہنا تھا کہ سرکاری گاڑی میں بھی تیل اپنی جیب سے ڈلواتا ہوں، میں یہاں کوئی خود نمائی نہیں کر رہا ہوں، اللہ نے مجھے اس ملک کا وزیر اعظم بنایا ہے۔

سرکاری دورے پر بھی جاؤں تو ٹکٹ اور ہوٹل جیب سے برداشت کرتا ہوں، میں مجنوں آدمی ہوں میں نے اپنا لیگل حق نہیں لیا تنخواہ اور مراعات نہیں لیں۔

وزارت اعلیٰ کے ادوار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب وزیر اعلی تھا چیف سیکریٹری نے سمری بھیجی چینی ایکسپورٹ کرنی چاہیے، میں نے ایکسپورٹ حد کا زمرہ منظور کیا اور سبسڈی کا معاملہ مسترد کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے اس فیصلے سے ہمارے خاندان کو 2 ارب روپے کا نقصان پہنچا، میں یہاں کوئی میاں مٹھو نہیں بن رہا آپ کو حقیقت بتا رہا ہوں، یہ کیس مجھ پر بنا دیا گیا کہ میں نے 25، 25 لاکھ روپے لیے ہیں۔

بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے ایتھنول پر ڈیوٹی لگائی تھی جس پر شوگر ملوں نے بڑا شور مچایا، میرے بیٹے کا اس وقت ایتھنول کا پلانٹ لگ رہا تھا میں نے پھر بھی ایتھنول پر ڈیوٹی کا حکم دیا۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: ایف آئی اے کا شہباز شریف، حمزہ شہباز کےخلاف ٹرائل نہ کرنے کا فیصلہ

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میرے خاندان کو میرے فیصلے سے سالانہ آٹھ کروڑ نقصان ہوا، پچھلی حکومت نے یہ نوٹی فکیشن واپس لے لیا کہ پنجاب کی ملوں کے ساتھ زیادتی ہے۔

بعدازاں جج نے شہباز شریف کو جانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ، آپ کی غیر موجودگی میں کیس چلتا رہے گا جس کے بعد وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب عدالت سے روانہ ہو گئے۔

سماعت کا احوال

دوران سماعت جج اعجاز اعوان نے وزیر اعظم کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آج باہر سیکیورٹی کے حالات ٹھیک ہیں، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ جی آج حالات ٹھیک ہیں۔

عدالت نے ایف آئی اے وکیل سے کہا کہ سلمان شہباز سمیت دیگر کے وارنٹ کی کیا رپورٹ آئی ہے، جس پر تحقیقاتی ادارے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وارنٹ کی رپورٹ جمع کرا دی گئی ہے ملزمان اپنے ایڈریس پر موجود نہیں تھے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ رپورٹ میں تو لکھا ہے کہ 41 ڈی ماڈل ٹاؤن کوئی پتا ہے ہی نہیں جس پر ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ پتا موجود ہے لیکن ملزم وہاں موجود نہیں ہے۔

وزیر اعظم کی درخواست پر انہیں بیٹھنے کی اجازت دینے کے بعد خصوصی عدالت کے جج اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے متضاد رپورٹس آئی ہیں، ایک طرف لکھا ہے ماڈل ٹاؤن کا ایڈریس 41 ڈی موجود ہی نہیں ہے، ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ ملزم سلمان شہباز بیرون ملک ہے۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف اور حمزہ کی ضمانت قبل از گرفتاری میں 30 اکتوبر تک توسیع

پراسکیوٹر ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ یہ لکھنے والے کی غلطی ہے، وہ لکھنا چاہ رہا تھا کہ ملزم وہاں موجود نہیں تھا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ جس تفتیشی افسر نے رپورٹ تیار کی وہ کہاں ہے، رپورٹ میں سلمان شہباز اور طاہر نقوی کی ولدیت بھی نہیں لکھی گئی ہے۔

وکیل ایف آئی اے فاروق باجوہ کا کہنا تھا کہ ہم دوبارہ وارنٹس کی تعمیل کرا کے نئی رپورٹ پیش کر دیتے ہیں۔

دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ ملزم غلام شبر وفات پا چکے ہیں ایف آئی اے نے ضمنی چالان میں اس کی تفتیش بھی لکھی ہے، جس پر ایف آئی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ غلام شبر کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ ایک سال پرانا ہے انکوائری اس سے پہلے شروع ہو گئی تھی۔

عدالت نے ایف آئی اے کو حکم دیا کہ تفتیشی افسر ابھی غلام شبر کی حد تک کی گئی تفتیش نکال کر عدالت کو آگاہ کریں ،بظاہر پھر یہ چالان ہی دوبارہ جمع کرانے پڑے گا۔

اس موقع پر وزیر اعظم کے وکیل امجد وکیل کا کہنا تھا کہ چالان میں حقائق غلط درج ہیں، ایف آئی اے نے بدنیتی کی، شہباز شریف جب جیل میں تھے اس وقت گرفتاری کی اجازت نہیں لی گئی، یہ کیس سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا تھا اس لیے بد نیتی شامل ہوئی۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: ایف آئی اے کی عدالت میں روزانہ سماعت کی درخواست

انہوں نے کہا کہ قانون ہے کہ اگر ایک شخص پر 10 مقدمے ہیں تو اسے ہر مقدمے میں الگ الگ گرفتار نہیں کیا جا سکتا، ایف آئی اے کا یہ کیس جھوٹا ہے۔

وزیر اعظم کے وکیل کے دلائل مکمل

وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادے کے عدالت سے جانے کے بعد دلائل دیتے ہوئے ان وکیل نے کہا کہ شہباز شریف کا کسی اکاوئنٹس سے کوئی تعلق نہیں ہے، بے نامی دار کو ثابت کرنا استغاثہ کا کام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 10 سالوں میں ایف آئی اے ایک بھی بیان نہیں لا سکے جس میں کہا گیا ہو کہ یہ اکاؤنٹس شہباز شریف کے تھے ،ہم ابھی اس میں نہیں جاتے استغاثہ کے کیس میں گواہوں کے بیانات درست ہے یا نہیں، استغاثہ کے کیس میں گواہوں کے بیانات کے مطابق اکائونٹس سلمان شہباز کے لیے کھولے گئے۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ گواہ یہ نہیں کہتے کہ یہ اکاؤنٹس شہباز شریف کے تھے،مشتاق چینی نے بھی اکائونٹس کھولے لیکن اس کے خلاف ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی، سرکار نے مشتاق چینی کے خلاف اس لیے کیس نہیں بنایا کیوں کہ مشتاق چینی کبھی پبلک آفس ہولڈر نہیں رہا۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف رمضان شوگر مل کے کبھی ڈائریکٹر نہیں رہے، نیب گواہ

دلائل جاری رکھتے ہوئے وزیر اعظم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بینک اکاؤنٹ کھولنے کے لیے جو فارم ہے اس میں کہیں نہیں لکھا کہ اکاؤنٹ شہباز شریف کے لیے کھولا جا رہا ہے، جس پر عدالت نے ریمارکس کیا کہ چالان میں چوہدری شوگر مل کا ذکر ہے

وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ چالان میں رمضان شوگر مل اور العریبیہ شوگر مل کا زکر ہے، ایف آئی اے کی جانب سے چالان میں کہانیاں لکھی گئی ہیں، چالان میں کوئی شواہد نہیں لگائے گئے، ایف آئی اے نے کئی لوگوں کے بیانات ریکارڈ کیے چالان جس میں انہیں ملزم بنایا گیا نہ ہی گواہ بنایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ محمد مقصود پر الزام ہے کہ اس نے 3 ارب 40 کروڑ روپے کی ٹرانزیکشن کی، محمد مقصود کا تنخواہ کے علاوہ جو بھی اکاونٹ کھلا وہ رمضان شوگر مل کے لیٹر ہیڈ پر نہیں تھا۔

محمد مقصود کے اکاؤنٹ میں 98 فیصد ٹرانزیکشن کیش نہیں بلکہ ٹرانسفر انٹریز ہیں ان کے اکاؤنٹ سے کبھی شہباز شریف کو پیسے نہیں گئے ریکارڈ کے مطابق محمد مقصود اپنی ریٹررنز جمع کراتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر مان لیں کہ مقصود بے نامی تھا تو یہ دیکھنا ہے کہ وہ کس قانون کے تحت جرم ہے، محمد مقصود پبلک آفس ہولڈر نہیں تھا ،اس کیس کو جس انداز سے بھی دیکھ لیں، اس کیس کا شہباز شریف سے کوئی بھی تعلق بنتا ہو تو میں عدالت سے چلا جاؤں گا۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کرنے والے سابق ڈائریکٹر ایف آئی اے انتقال کر گئے

امجد پرویز کا کہنا تھا کہ تفتیشی نے سارا کیس کمرے میں بیٹھ کر بنایا، کیس میں رکھے گیے تمام 64 گواہ اس پریکٹس کی بات کررہے ہیں جو مارکیٹ میں چلتی ہے، ایف آئی اے کو چاہیے کہ ہر انٹری کی تفتیش کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ 4 ارب کی بات کرتے ہیں، ریکارڈ کے مطابق مقصود کے اکاؤنٹ میں پانچ کروڑ آیا تھا تیسری پارٹی کے نام چیک دینا مارکیٹ میں معمول کی بات ہے۔

عدالت نے ایف آئی اے کے وکیل کو چالان کے نقص دور کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ چالان میں ملزمان کے نام بھی ولدیت کے بغیر درج ہیں ، ایف آئی اے کو چالان جمع کرانے کی جلدی تھی اس لیے نقائص کے ساتھ ہی چالان جمع کرا دیا۔

عدالت نے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت میں 4 جون تک توسیع کردی۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف، حمزہ شہباز کی ایف آئی اے کے منی لانڈرنگ کیس کے خلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر

شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے عبوری ضمانت کی توثیق پر دلائل مکمل کر لیے، عدالت نے حمزہ شہباز کے وکیل کو آئندہ سماعت پر دلائل دینے کی ہدایت کر دی۔

نواز شریف نے کسی کو دھمکی نہیں دی، وزیراعظم

بعدازاں عدالت کے باہر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے کسی کو دھمکی نہیں دی کسی سے تلخ بات نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے تمام بڑے ممالک کے سربراہان سے کہا کہ مجھے پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے، دنیا کے بڑے ممالک کے سربراہان سے تلخ انداز بات نہیں کی بڑے اچھے انداز میں بات کی۔

انہوں نے کہا کہا آپ کے پانچ ارب ڈالر کی امداد کا شکریہ لیکن جب تک ہم زندہ رہیں گے پاکستان پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کے عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، اس لیے ہم نے دل پر پتھر رکھ کر قومی خزانے سے ماہانہ 28 ارب روپے خرچ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے غریب عوام کو 2 ہزار روپے مہینہ سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024