الیکٹرانک ووٹنگ، اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق سے متعلق گزشتہ حکومت کی ترامیم ختم
قومی اسمبلی نے الیکشن ترمیمی بل 2022 منظور کر لیا جس کے تحت الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) اور اوورسیز ووٹنگ سے متعلق گزشتہ حکومت کی ترامیم ختم کردی گئیں اور قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی بل بھی منظور کرلیاگیا۔
اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں پارلیمانی امور کے وزیر مرتضیٰ جاوید عباسی نے بل اسمبلی میں پیش کیا، انتخابات ایکٹ 2017 کے سیکشن 94 اور سیکشن 103 میں ترامیم کی گئی ہیں۔
الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 94 میں ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن ضمنی انتخابات میں سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کے لیے پائلٹ پروجیکٹس کر سکتا ہے تاکہ اس طرح کی ووٹنگ کی تکنیکی افادیت، رازداری، سیکیورٹی اور مالی امکانات کا پتا لگایا جاسکے اور حکومت کے ساتھ نتائج کا اشتراک کرے۔
سیکشن 103 میں ترمیم کے تحت ای سی پی ضمنی انتخابات میں ای وی ایم اور بائیو میٹرک تصدیق کے نظام کے استعمال کے لیے پائلٹ پراجیکٹس کر سکتا ہے۔
بل پیش کرنے سے قبل مرتضیٰ جاوید عباسی نے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے بل کو براہ راست سینیٹ میں منظوری کے لیے بھیجنے کی اجازت دینے کی تحریک پیش کی جو کثرت رائے سے منظور کر لی گئی، بل کو سینیٹ میں بھیجے جانے کا امکان ہے۔
انتخابی ترمیمی بل پر بحث
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بل بہت اہمیت کا حامل ہے، پی ٹی آئی حکومت نے الیکشن ایکٹ 2017 میں کئی ترامیم کی ہیں، جن میں ای وی ایم کے استعمال کی اجازت اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج پیش کیا گیا بل الیکشن ایکٹ 2017 کو ان ترامیم سے پہلے کی شکل میں بحال کرنے کی کوشش ہے جس سے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات یقینی بنائے جاسکیں گے۔
وزیر قانون نے کہا کہ ای وی ایم مشین پر الیکشن کمیشن میں بہت سے اعتراضات اٹھائے گئے، بہت کم فرق سے اس بل کو قومی اسمبلی سے منظور کروایا گیا، یہ بل سینیٹ میں آیا تو اس کو کمیٹی میں بھیجا گیا، ہم نے اس کے اوپر بہت سے اجلاس کیے۔
انہوں نے کہا کہ نئے بل کے تحت ایکٹ کے سیکشن 94 اور 103 میں 2 ترامیم کی جارہی ہیں، دونوں کا تعلق الیکشن کمیشن سے ہے جس کی ذمہ داری بیرون ملک ووٹنگ اور ای وی ایم کے استعمال کے لیے پائلٹ پراجیکٹس چلانا ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی ای وی ایم کے استعمال پر اعتراضات اٹھائے تھے، انہوں نے واضح کیا کہ حکومت ٹیکنالوجی کے استعمال کے خلاف نہیں ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمیں صرف ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کے بارے میں خدشات ہیں کیونکہ گزشتہ عام انتخابات میں ایک مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت کی خاطر نتائج کی ترسیل کا نظام ناکام ہوگیا تھا۔
انہوں نے اس تاثر کو بھی ر کیا کہ ترامیم کا مقصد سمندر پار پاکستانیوں کو ان کے ووٹ کے حق سے محروم کرنا ہے، انہوں نے کہا کہ سمندر پار پاکستانی ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں اور حکومت ان سے ووٹ کا حق چھیننے پر یقین نہیں رکھتی۔
اس موقع پر اپوزیشن لیڈر راجا ریاض نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین ملک کے ہر حصے میں کامیاب نہیں ہو سکتی، کئی مقامات آج بھی انٹرنیٹ سے محروم ہیں۔
جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ ہم نے پچھلی حکومت میں اس بل کی مخالفت کی تھی، یہ تمام سیاسی پارٹیوں کا مسئلہ ہے ، ہم تو کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت اپنے دن پورے کرے۔
انہوں نے کہا کہ اس بل پر الیکشن کمیشن سے رائے لی جائے، سیاسی پارٹیوں سے بھی رائے لی جائے، اس بل میں الیکشن کمیشن کے اختیارات کا ذکر نہیں، اگر الیکشن کمیشن کو مزید بااختیار بنایا جاتا تو بہتر ہوتا، پارٹی سربراہان کو طلب کر کے بل پر رائے لینی چاہیے۔
تاہم گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے رکن اسمبلی غوث بخش مہر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ای وی ایم دنیا میں ہر جگہ ہیں ہمیں آزمانا چاہیے، پورے ملک میں نہیں تو کچھ جگہوں پر ای وی ایم استعمال کرنی چاہیے۔
ترامیم
• انتخابات ایکٹ 2017 کے سیکشن 94 کے تحت الیکشن کمیشن ضمنی انتخابات میں اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹنگ کے لیے پائلٹ پراجیکٹ کرے تاکہ ٹیکنیکل، رازداری، سیکیورٹی اور اس طرح کی ووٹنگ کے لیے اخراجات کا تعین کیا جائے اور نتائج سے حکومت کو آگاہ کرے اور رپورٹ موصول ہونے کے بعد 15 دن کے اندر ایوان کا اجلاس بلایا جائے اور اس کو دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کیا جائے۔
• الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 103 میں کی گئی ترامیم کے تحت الیکٹرانک اور بائیومیٹرک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کا بھی ضمنی انتخابات میں پائلٹ پراجیکٹ کیا جائے۔
واضح رہے کہ 17 نومبر 2021 کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2021 دیگر 33 بلز سمیت اپوزیشن کی شدید ہنگامہ آرائی اور مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔
اس بل کے تحت 2017 کے الیکشن ایکٹ میں 2 ترامیم تجویز کی گئی تھیں جو کہ انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کا حق دینے سے متعلق تھیں۔
گزشتہ ماہ حکومت سنبھالنے کے بعد سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت کی جانب سے بارہا انتخابی اصلاحات لانے کا اعلان کیا جاتا رہا ہے۔
نیب ترمیمی بل
وزیر برائے پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں ترامیم کا بل بھی ایوان میں پیش کیا جو کہ بعدازاں منظور کرلیا گیا۔
اس بل کا عنوان قومی احتساب (دوسری ترمیم) بل 2021 ہے جس کے تحت چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ کے بعد کا طریقہ کار وضع کر دیا گیا ہے۔
نیب آرڈیننس میں ترامیم
• چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے، ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی میں ادارے کے کسی بھی سینئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کا چارج ملے گا۔
• نئے چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے مشاورت کا عمل 2 ماہ پہلے شروع کیا جائے گا، مشاورت کا عمل 40 روز میں مکمل ہوگا، وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف میں اتفاق رائے نہ ہونے پر تقرر کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو جائے گا اور پارلیمانی کمیٹی چیئرمین نیب کا نام 30 روز میں فائنل کرے گی۔
• چیئرمین نیب کی 3 سالہ مدت کے بعد اسی شخص کو دوبارہ چیئرمین نیب نہیں لگایا جائے گا۔
• وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے، مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی یا صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے۔
• کسی بھی ترقیاتی منصوبے یا اسکیم میں بےقاعدگی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گی۔
• کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کر سکے گا۔
• احتساب عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی 3 سال کے لیے ہوگی اور مقدمات کے فیصلے ایک سال کے اندر کیے جائیں گے۔
• گرفتاری سے قبل نیب شواہد کی دستیابی یقینی بنائے گا۔
• جھوٹا ریفرنس دائر کرنے پر 5 سال تک قید کی سزا ہوگی۔
بل میں شامل ترامیم کے مطابق چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے، ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی میں ادارے کے کسی بھی سینئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کا چارج ملے گا۔
ترامیم کے تحت وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے ہیں، مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی یا صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے۔
ترامیم کے مطابق کسی بھی ترقیاتی منصوبے یا اسکیم میں بےقاعدگی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گی، کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کر سکے گا۔
بل کے مطابق احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی 3 سال کے لیے ہوگی، احتساب عدالت کے جج کو ہٹانے کے لیے متعلق ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہوگی۔
ترامیم کے تحت نئے چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے مشاورت کا عمل 2 ماہ پہلے شروع کیا جائے گا، نئے چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے مشاورت کا عمل 40 روز میں مکمل ہوگا۔
بل کے مطابق وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق رائے نہ ہونے پر تقرر کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو جائے گا، پارلیمانی کمیٹی چیئرمین نیب کا نام 30 روز میں فائنل کرے گی، چیئرمین نیب کی 3 سالہ مدت کے بعد اسی شخص کو دوبارہ چیئرمین نیب نہیں لگایا جائے گا۔
اس حوالے سے اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں کہا کہ سابق وزیراعظم نہیں چاہتے تھے کہ اس ایوان میں قانون سازی ہو، گزشتہ حکومت آرڈیننس کے ذریعے معاملات چلاتی رہی۔
انہوں نے کہا کہ ایک آرڈیننس چیئرمین نیب کے حوالے سے جاری کیا گیا اور توسیع دی گئی، اس کے بعد کچھ اور ترامیم کی گئیں جس کے ذریعے سول سرونٹس کو بھی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، بغیر کسی ثبوت کے سول سرونٹس کو جیل میں ڈالا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں کو ان کی آواز تبدیل کو دبانے کے لیے اس نیب کے قانون کو استعمال کیا گیا، ججز نے کہاکہ نیب کو سیاستدانوں کو دیوار سے لگانے کے لیے استعمال کیا گیا۔
2023 کے الیکشن کے اخراجات کی تفصیلات جاری
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران 2023 کے انتخابات کے لیے اخراجات کی تفصیلات بھی جاری کی گئیں۔
ایوان میں پیش کی گئی دستاویز کے مطابق الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کے لیے 47 ارب 41 کروڑ روپے جبکہ انتخابات میں آرمی سمیت سیکیورٹی کے لیے 15 ارب روپے کا تخمینہ پیش کیا ہے۔
دستاویز کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ کرانے کے لیے 5 ارب 60 روپے کے اخراجات جبکہ بیلٹ پیپرز کی اشاعت کے لیے 4 ارب 83 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔
دستاویز کے مطابق انتخابی عملے کی تربیت کے لیے ایک ارب 79 کروڑ روپے خرچ ہوں گے، پنجاب میں انتخابات کے لیے 9 ارب 65 کروڑ روپے، سندھ میں انتخابات کے لیے 3 ارب 65 کروڑ روپے، خیبر پختونخوا میں انتخابات کے لیے 3 ارب 95 کروڑ روپے اور بلوچستان میں انتخابات کے لیے ایک ارب 11 کروڑ روپے کے اخراجات کا تخمینہ دیا گیا ہے۔
بل متوقع طور پر کل سینیٹ کو بھیج دیا جائے گا۔
تبصرے (2) بند ہیں