توشہ خانہ کی کہانی
مذاقاً یہ کہا جاتا ہے کہ جب وزیرِاعظم شہباز شریف اپنے وفد کے ہمراہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے لیے گئے تو نہ ہی میزبانوں نے اور نہ ہی مہمانوں نے اپنی گھڑیوں کی جانب دیکھا، انہیں ڈر تھا کہ کہیں وہ ایک دوسرے کو شرمندہ نہ کردیں۔
یہاں یہ بات دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ محمد بن سلمان کی جانب سے وزیرِاعظم عمران خان کو دی جانے والی گھڑی کے ساتھ کیا ہوا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بہت مزاحیہ میمز بھی شیئر ہوئیں جن میں میمز بنانے والوں نے دونوں معزز شخصیات کے درمیان اس بیش قیمت گھڑی کے مستقبل کے حوالے سے مزاحیہ اور طنزیہ جملے لکھے۔
مذاق کو ایک طرف کرتے ہوئے سنجیدگی سے دیکھا جائے تو اگر اسلام آباد میں مقیم صحافی رانا ابرار احمد خالد استقامت کا مظاہرہ نہ کرتے تو ہمیں اس معاملے کا علم ہی نہیں ہوتا۔ رانا ابرار نے پاکستان انفارمیشن کمیشن (پی آئی سی) کے ذریعے معلومات تک رسائی کی درخواست دائر کی جسے کیبنیٹ ڈویژن ایک عرصے تک اس بنا پر رد کرتا رہا کہ اس معلومات سے برادر ممالک کی حکومتوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ تاہم شدید دباؤ اور نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے باوجود رانا ابرار ڈٹے رہے اور یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گیا۔
بلآخر عدالت نے اس پورے معاملے سے پردہ اٹھایا اور ہمیں معلوم ہوا کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ کو غیر ملکی سربراہانِ مملکت و حکومت، بشمول خلیجی ممالک کے شاہی افراد سے کتنے تحائف ملے اور ان میں سے انہوں نے کتنے تحائف معمولی قیمت دے کر اپنے پاس رکھے۔ درحقیقت خود کیبنٹ ڈویژن نے ان تفصیلات کو جاری کرکے پی آی سی کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس نے عمران خان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا۔
یہ بات درست ہے کہ عمران خان کوئی پہلے حکمران نہیں ہیں جنہوں نے غیر ملکی شخصیات سے ملنے والے تحفے بغیر کسی قیمت کے یا پھر ان کی مجوزہ قیمت کا معمولی سا حصہ ادا کرکے اپنے پاس رکھ لیے ہوں۔ تاہم وہ ایسے پہلے حکمران ضرور ہیں جنہوں نے توشہ خانہ کے تحائف کم قیمت میں حاصل کرکے انہیں بہت زیادہ منافع کے ساتھ فروخت کردیا۔
اگرچہ کسی حکومتی شخصیت نے اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے لیکن اس معاملے میں سب سے زیادہ شرمندہ کرنے والی چیز کلائی پر پہنی جانے والی ایک گھڑی تھی جو دبئی میں ایک جیولر کو فروخت کی گئی۔ اس گھڑی کو بنانے والوں کی جانب سے ویسی چند ہی گھڑیاں بنائی گئی تھیں۔ چونکہ مارکیٹ میں سب کو معلوم تھا کہ یہ گھڑیاں کس کو فروخت کی گئیں ہیں اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس جیولر نے (یا پھر جیولر کی اطلاع پر گھڑی ساز نے) سعودی عرب فون کرکے یہ معلوم کیا کہ کہیں ان کی کوئی گھڑی چوری تو نہیں ہوگئی کیونکہ وہ گھڑی فروخت کے لیے آئی ہے۔
اب یہ بات واضح نہیں کہ وہ فون واقعی سعودیوں کو کیا گیا تھا یا نہیں لیکن عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی زلفی بخاری دونوں نے کیمرے پر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ توشہ خانہ سے تحائف حاصل کرنے کے بعد انہیں فروخت کیا گیا تھا۔ زلفی بخاری نے ایک ٹی وی انٹرویو میں عمران خان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ 'جب میں نے مجوزہ طریقہ کار پر عمل کرکے تحفے خرید لیے تو پھر میں ان کا مالک ہوں اور میرا حق ہے کہ میں انہیں جیسے چاہوں استعمال کروں'۔
ان کی اس بے عیب منطق کو غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پھر بھی یہ سوال ضرور موجود ہے کہ کیبنیٹ ڈویژن اس وقت تک پی آئی سی کے احکامات ماننے سے کیوں انکار کرتا رہا جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسے مجبور نہ کیا؟
یہ بات ملک کے لیے بہت شرمندگی کا باعث تھی کہ ایک برادر عرب ملک کی جانب سے ملنے والا تحفہ بازار میں فروخت کردیا گیا۔ اس بارے میں بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ کیا کچھ خریدا گیا اور مجوزہ قیمت کا کتنا حصہ ادا کیا گیا کیونکہ یہ سب تفصیلات اب دستیاب ہیں۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ کی جانب سے 100 سے زائد اشیا خریدی گئیں جن کی مالیت تقریباً 15 کروڑ روپے بنتی ہے۔
تاہم اسکینڈل یہ ہے کہ باقی جمہوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی توشہ خانہ کے تحائف رکھنے یا خریدنے کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔ رانا ابرار نے یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ کسی قانون کے نہ ہونے کی وجہ سے اس قسم کی خریداری پروسیجر آف توشہ خانہ آفس میمورنڈم کے تحت ہوتی ہے جسے کیبنیٹ سیکریٹری جاری کرتا ہے اور اس میں ترمیم کا اختیار بھی اسی کے پاس ہوتا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ پارلیمنٹ کو اس معاملے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی اور قانون سازی کرنی ہوگی۔ یہ بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر کیبنیٹ سیکریٹری کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ 'آزاد جائزہ کاروں' سے تحائف کی قیمت کا تخمینہ حاصل کرے لیکن جائزہ لینے والا کتنا آزاد ہے اور اس کا لگایا گیا تخمینہ کس قدر درست ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس سارے عمل کا کرتا دھرتا کیبنیٹ سیکریٹری ہوتا ہے۔
ہمیں معلوم ہے کہ پاکستان میں معاملات کس طرح چلتے ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے اگر کیبنیٹ سیکریٹری کا باس یعنی وزیرِاعظم کسی تحفے کو اس کی قیمت کا 20 یا 50 فیصد ادا کرکے خریدنے میں دلچسپی ظاہر کرے کو پھر قیمت کا تعین کرنے کا عمل اور تعین شدہ قیمت کتنی درست ہوگی؟
یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا 'گاف' گھڑی جس کی مالیت کا تعین '8 کروڑ 50 لاکھ روپے' ہوا ہے، اس سے کہیں زیادہ مالیت کی تھی؟ کیونکہ گھڑی ساز کلیکٹرز آئٹمز بناتے ہیں اور عمران خان نے اس کی صرف 20 فیصد مالیت ادا کرکے اسے حاصل کرلیا۔ اور خدا نا کرے کہ کیبنیٹ ڈویژن میں کسی نے غلطی سے گھڑی ساز 'گراف' کو 'گاف' لکھ دیا ہو۔ میں یہ اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ سوئس گھڑی ساز 'گراف' کی گھڑیوں کی قیمت 5 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تک بھی ہوتی ہیں۔
اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران عمران خان تواتر کے ساتھ برطانوی جمہوریت کی مثالیں دے کر پوچھتے تھے کہ کیا فلاں فلاں چیزیں ہمارے ملک میں ممکن ہیں؟ وہ اکثر جن مسائل کا ذکر کرتے تھے وہ برطانیہ میں دیکھنے میں ہی نہیں آتے۔ ان میں اپوزیشن کے رویے یا ان کی جماعت کے اراکین کی جانب سے فلور کراسنگ یا اس جیسے دیگر مسائل شامل ہوتے تھے جو عمران خان کے لیے پریشانی کا باعث ہوتے تھے۔
لیکن یہاں بھی وہ حقائق کو الجھا گئے۔ آئرن لیڈی کہلائی جانے والی مشہور برطانوی وزیرِاعظم مارگریٹ تھریچر کو ان کے پیشرو جان میجر کی قیادت میں ہونے والی اندرونی بغاوت کی وجہ سے عہدے سے ہٹنا پڑا۔ پھر عمران خان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے برطانوی قانون کے مطابق کوئی بھی وزیر اور وزیرِاعظم صرف ان تحائف کو بغیر کوئی قیمت ادا کیے رکھ سکتے ہیں جن کی مالیت 140 پاؤنڈ سے کم ہو جبکہ اس سے زیادہ مالیت کے تحائف رکھنے کے لیے انہیں ان کی پوری مالیت کے برابر رقم ادا کرنی ہوگی۔
اسی طرح کی ایک قانون سازی 1966ء میں امریکا میں بھی کی گئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب عرب حکمران اپنے تحفوں میں بہت زیادہ سخاوت دکھانے لگے تھے، یہاں تک کہ وہ امریکی صدور کو تحفے میں گاڑیاں بھی دینے لگے تھے۔ امریکا میں بھی 375 ڈالر کی حد مقرر کی گئی اور اس سے زائد مالیت کے تحائف کو رکھنے کے لیے ان کی مکمل قیمت ادا کرنی ہوتی تھی۔
2012ء میں برما کی آنگ سانگ سوچی نے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہلیری کلنٹن کو سیاہ موتیوں کا ایک ہار تحفے میں دیا۔ ہلیری کلنٹن اسے اپنے پاس رکھنا چاہتی تھیں اس وجہ سے انہوں نے اس ہار کی مکمل قیمت یعنی 970 ڈالر ادا کی۔ یوں ان تحفوں سے کوئی بھی حکمران منافع نہیں کما سکتا۔
گزشتہ ہفتوں کے دوران جب اس معاملے کے بہت چرچے تھے تو بھارتی میڈیا فخر کے ساتھ بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کا 2018ء کا ایک بیان یاد کروا رہا تھا۔ اس وقت مودی نے بتایا تھا کہ بحیثیت وزیرِ اعلیٰ گجرات انہیں جتنے بھی تحفے ملے انہوں نے ان میں سے کوئی بھی تحفہ اپنے لیے نہیں رکھا۔ اس کے برعکس انہوں نے ان تحفوں کی نیلامی کروائی اور اس سے حاصل ہونے والی رقم لڑکیوں کے اسکولوں کے لیے خرچ کی۔
بھارتی قوانین کے مطابق بھی وزیرِاعظم 5 ہزار بھارتی روپے تک مالیت کے تحائف اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ بحیثیت وزیرِاعظم مودی نے ملنے والے تحائف کو نیلام کروایا اور ان کی رقم 'کلین گنگا' منصوبے کے لیے دے دی جس کا مقصد اس مشہور دریا کو صاف کرنا ہے۔ اگر کبھی کوئی بھارتی وزیرِاعظم سرکاری تحائف خریدنا چاہے تو اسے ان تحائف کی مکمل رقم ادا کرنی ہوگی۔
پاکستان میں لالچ کی یہ کہانی بالکل مختلف ہے۔ مثال کے طور پر 1999ء سے 2009ء کے دوران شائع ہونے والی اخباری رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے صدور اور وزرائےاعظم نے کُل ملاکر 10 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے تحفے زیادہ سے زیادہ 20 فیصد مالیت کے برابر رقم ادا کرکے حاصل کیے۔ ان میں سے جنرل مشرف اور ان کے وزیرِاعظم شوکت عزیز نے اپنے اقتدار کے دوران تقریباً 2 ہزار تحائف خود رکھے۔
مبیّنہ طور پر سابق صدر جنرل مشرف کی اہلیہ نے بھی ایک عرب شخصیت کی جانب سے تحفے میں دیے گئے 60 لاکھ روپے مالیت کے ہار کو صرف 20 فیصد رقم ادا کرکے اپنے پاس رکھ لیا۔ وزیرِاعظم شوکت عزیز کو 2 ہزار تحائف ملے اور انہوں نے ان میں سے ایک ہزار 126 تحائف اپنے پاس رکھے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ شوکت عزیز ایک کروڑ پتی شخصیت اور کامیاب بین الاقوامی بینکر تھے جو باآسانی ان تحائف کی مکمل مالیت ادا کرسکتے تھے لیکن پھر بھی انہوں نے 'قوانین' سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
آصف زرداری نے بھی اپنی 5 سالہ مدتِ صدارت کے پہلے ہی سال غیر ملکی سربراہانِ حکومت و مملکت کی جانب سے ملنے والے تحائف میں سے 6 کروڑ روپے مالیت کے تحائف 90 لاکھ روپے سے کچھ زائد رقم دے کر اپنے پاس رکھ لیے۔ ان تحائف میں لیبیا کے صدر معمر قذافی کی جانب سے دی گئیں 2 بی ایم ڈبلیو گاڑیاں اور 2 ایس یو ویز شامل تھیں۔
شوکت عزیز کی طرح آصف زرداری بھی ان تحائف کی مکمل قیمت ادا کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔ وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کی اہلیہ کو ترک خاتون اوّل نے سیلاب فنڈ کے لیے اپنا ہار پیش کیا۔ یوسف رضا گیلانی نے اس کی 20 فیصد قیمت بھی ادا نہیں کی۔ بعدازاں معاملہ سامنے آنے پر یوسف رضا گیلانی کو وہ ہار واپس کرنا پڑا۔
ایسا نہیں ہے کہ ہم نے اب تک جن حکمرانوں کا ذکر کیا ہے صرف انہوں نے ہی تحائف اپنے پاس رکھے ہیں۔ ریکارڈز بتاتے ہیں کہ ہمارے صدور میں جنرل ضیا الحق، غلام اسحٰق خان اور رفیق تارڑ اور وزرائےاعظم میں محمد خان جونیجو، نواز شریف، بے نظیر بھٹو، بلخ شیر مزاری، ظفراللہ جمالی اور چوہدری شجاعت حسین نے بھی کسی نہ کسی صورت میں اس سے فائدہ اٹھایا اور مہنگے تحائف کو بہت معمولی قیمت کے عوض اپنے پاس رکھا۔
لیکن اس حوالے سے کوئی ریکارڈ یا ثبوت موجود نہیں ہے کہ کسی بھی حکمران نے عمران خان کی طرح ان تحائف کو منافع کے لیے فروخت کردیا ہو۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے اس پر تبصرہ کیا کہ 'کیسی گراوٹ ہے کہ اللہ کا دیا سب کچھ، شریعت کے طابع طالبان خان اور 'صادق و امین' سے گر کر توشہ خانہ کے سیلز مین بن گئے'۔
بلاشبہ یہ ایک بہت سخت تبصرہ ہے لیکن ایک طرح سے اس لیڈر میں آنے والی تبدیلی کا احاطہ کرتا ہے جو مادی فوائد کو حقارت سے دیکھتا تھا اور ان لوگوں کو اچھا نہیں سمجھتا تھا جو مادی یا مالی فوائد حاصل کرتے تھے۔
یہ مضمون 15 مئی 2022ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔