‘انتقامی کارروائی کسی کےخلاف نہیں ہونی چاہیے’، شیریں مزاری کی گرفتاری پر مذمتی بیانات
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما اور سابق وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی اسلام آباد میں ان کے گھر کے باہر سے گرفتاری کے بعد صحافیوں، تجزیہ کاروں، حکومت اور اپوزیشن دونوں اطراف کے سیاست دانوں سمیت ہر شعبے سے اس واقعے کی مذمت کی گئی۔
شیریں مزاری کی گرفتاری کی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خواتین پولیس اہلکار انہیں کار سے باہر نکال رہی ہیں جبکہ انہیں احتجاج اور یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ '‘مجھے مت چھوئیں‘۔
فوٹیج میں نامعلوم آواز بھی سنی جاسکتی ہے، جس میں کہا جا رہا ہے کہ ‘کوئی مسئلہ نہیں ہے’ اور معاملے پر پرامن طریقے سے بات ہوسکتی ہے جبکہ شیریں مزاری کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ‘آپ وائیلنس کر رہے ہیں، آپ میرا فون نہیں لے سکتے ہیں’۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کا شیریں مزاری کی رہائی کا حکم
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) سینیٹر مصطفیٰ کھوکھر نے شدید مذمت کی اور کہا کہ چیزیں تبدیل نہیں ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ شیریں مزاری میری پڑوسی اور اچھی دوست ہیں، ان کی گرفتاری شرم ناک اور بدترین سیاسی انتقام ہے۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ جو لوگ خود ماضی میں ان حالات سے گزرے ہوں اوراس کے خلاف بات کی ہو وہ کیسے یہ کریں گے اپنی آنکھیں بند کریں گے۔
پی پی پی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے ٹوئٹ میں کہا کہ شیریں مزاری ‘کی گرفتاری غلط ہے’ اور ان پر کوئی الزام نہیں تھا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی سینئر رہنما شیریں مزاری کی گرفتاری اور بدتمیزی کی مذمت کرتے ہیں اور یہ واقعہ سیاسی انتقام کا شاخسانہ ہے۔
صحافی مظہرعباس نے کہا کہ ‘شیریں مزاری موجودہ حکومت کے تحت پہلی سیاسی قیدی ہیں، سیاسی رہنما اور حکومتیں ماضی سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘میں ان کے نکتہ نظر سے اتفاق نہیں کرتا لیکن ان کی گرفتاری اور ان کے ساتھ ہونے والے سلوک کی شدید مذمت کرتا ہوں’۔
صحافی عاصمہ شیرازی نے کہا کہ یہ عمل انتہائی قابل مذمت ہے اور ہراسانی ہے۔
سینئر صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کردینی چاہیے۔
ڈان نیوز کی اینکر ابصا کومل کا کہنا تھا کہ شیریں مزاری کو ’50 سال پرانے جائیداد کے مبہم مقدمے میں گرفتار کیا گیا جو قابل مذمت ہے’۔
صحافی سلیم صافی نے بھی شیریں مزاری کی گرفتاری پر تنقید کی اور کہا کہ ‘قانون سے بالاتر کوئی نہیں لیکن کسی کے خلاف انتقامی کاروائی ہونی چاہئے اور نہ کسی کی چاردیواری کا تحفظ پامال ہونا چاہئے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘شیریں مزاری سے لاکھ نظریاتی اختلاف سہی لیکن ان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہونی چاہیے’۔
صحافی احمد قریشی کا کہنا تھا کہ شیریں مزاری نے ‘میرے اوپر الزامات لگانے کی کوشش کی اور مجھے سابق وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کی سازش سے جوڑتے ہوئے اپنی سیاسی جماعت کے اندر انتہاپسندوں کو مشتعل کیا اور میرے خلاف اشتعال دیا’۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا شیریں مزاری کو آج رات ساڑھے گیارہ بجے پیش کرنے کا حکم
ان کا کہنا تھا کہ امید ہے شیریں مزاری کے ساتھ بہتر سلوک ہوگا اور ان کے کیس کو اچھے انداز میں حل کیا جائے گا۔
شیریں مزاری اور احمد قریشی حال ہی میں ٹوئٹر پر ایک بحث میں الجھ گئے تھے جس میں مبینہ طور پر سابق وزیراعظم عمران خان کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے ان کے اور خاندان کے روابط کا استعمال کرنے سے متعلق بات کی گئی تھی۔
انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ کی قانونی مشیر ریما عمر کا کہنا تھا کہ ‘افسوس ناک، یہ غیرقانونی اقدام مکمل طور پر ہراسانی ہے اور بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے’۔
بیرسٹر اسد رحیم خان کا کہنا تھا کہ خیال رہے کہ شیریں مزاری کو اس کیس کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا جو اس وقت درج ہوا تھا جب ان کی عمر 6 سال تھی اور نصف صدی بعد تحقیقات کی جارہی ہیں۔
سیاسی رہنما عمار راشد کا کہنا تھا کہ شیریں مزاری کے ساتھ سیاسی اختلافات ہیں لیکن یہ واضح ہے کہ ان کی گرفتاری اسٹیبلشمنٹ پر ان کی جانب سے کی جانے والی حالیہ تنقید ہے۔
ولسن سینٹر واشنگٹن کے جنوبی ایشیائی امور کے اسکالر مائیکل کوگلمین نے نشان دہی کی کہ یہ گرفتاری نئی حکومت کو مزید کمزور کرے گی جو پہلے ہی عمران خان اور ان کی جماعت کے احتجاج کی وجہ سے پریشان ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں