• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری کو 'گرفتار' کرلیا گیا

شائع May 21, 2022
—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز
سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری—فائل فوٹو: ڈان نیوز
سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری—فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کو اسلام آباد سے 'گرفتار' کرلیا گیا۔

ڈان ڈاٹ کام کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے تصدیق کی تھی کہ شیریں مزاری کو حراست میں لیا گیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر میں بیان میں شیریں مزاری کی بیٹی اور معروف وکیل ایمان زینب مزاری نے کہا کہ 'مرد پولیس اہلکاروں نے میری والدہ کو مارا اور اپنے ساتھ لے گئے، مجھے صرف اتنا بتایا گیا کہ انہیں لاہور کا اینٹی کرپشن ونگ اپنے ہمراہ لے کر گیا ہے'۔

اسلام آباد پولیس نے ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ 'ڈاکٹر شیریں مزاری کو قانون کے مطابق اسلام آباد کی خواتین پولیس اہلکاروں نے گرفتار کیا، کسی قسم کی مس ہینڈلنگ کی خبریں بے بنیاد ہیں'۔

پولیس نے بتایا کہ 'خواتین پولیس افسران نے محکمہ اینٹی کرپشن کی درخواست پر گرفتار کیا'۔

شیریں مزاری کی گرفتاری کی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خواتین پولیس اہلکار انہیں کار سے باہر نکال رہی ہیں جبکہ انہیں احتجاج اور یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ '‘مجھے مت چھوئیں‘۔

فوٹیج میں نامعلوم آواز بھی سنی جاسکتی ہے، جس میں کہا جا رہا ہے کہ ‘کوئی مسئلہ نہیں ہے’ اور معاملے پر پرامن طریقے سے بات ہوسکتی ہے جبکہ شیریں مزاری کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ‘آپ وائیلنس کر رہے ہیں، آپ میرا فون نہیں لے سکتے ہیں’۔

'میری والدہ کو اغوا کیا گیا'

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایمان زینب مزاری نے کہا کہ غنڈوں کی طرح ایک عورت کو آج اٹھایا گیا نہ اس کے خاندان کو کچھ بتایا گیا تو اگر اس قسم کی حرکتیں کرنی ہیں تو میں اس حکومت کو وارننگ دیتی ہوں کہ میں اس کے پیچھے آؤں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ گرفتار کرتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ کس کیس میں لے کر جارہے ہیں لیکن میری والدہ کو اس حکومت کی جانب سے جبراً لاپتا کیا گیا ہے مجھے نہیں معلوم وہ کہاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں خواتین ایک سافٹ ٹارگٹ ہیں تو میں اس حکومت کو ایک واضح پیغام دینا چاہتی ہوں کہ اگر میری والدہ کو کچھ ہوا تو میں انہیں چھوڑوں گی نہیں۔

شیریں مزاری کے خلاف الزامات

پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں اینٹی کرپشن یونٹ کی جانب سے 11 اپریل کو شیریں مزری کے خلاف درج کی گئی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں کہا گیا ہے کہ شیریں مزاری نے اپنے والد عاشق محمد خان سے وراثت میں زمین ملی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ شیریں مزاری نے روجھان میں مذکورہ زمین سے پروگریسو فارم لمیٹڈ کو ‘جعل سازی’ کرتے ہوئے 800 کنال منتقل کیا۔

دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر روجھان کے مطابق محکمہ ریونیو کے ریکارڈ میں ان کمپنیوں کا سراغ نہیں ملا اور لہٰذا ‘یہ کمپنیاں بوگس تھیں’۔

ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ شیریں مزاری پر الزام ہے کہ انہوں نے زمین کی ‘جعلی’ منتقلی کے لیے مقامی لینڈ اتھارٹیز سے مل کر سازش کی۔

درجنوں مقدمات ہیں، ترجمان وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف کے ترجمان رکن پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ شیریں مزاری کے خاندان نے اراضی کے ریکارڈ ‘ردوبدل کی’ اور ‘غریب کسانوں سے زبردستی واپس لے لی ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘فیڈرل لینڈ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق کارروائی متتعلقہ علاقے کے ریونیو افسر اور شیریں مزاری کے خلاف کی گئی ہے جو اس سے فائدہ اٹھا چکے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘زمین ان کے قبضے میں ہے اور 200 سے زائد درخواست گزار ہیں’۔

ملک احمد خان نے کہا کہ ‘کھلم کھلا فراڈ’ پر تحقیقات ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ شیریں مزاری کے خلاف مقدمہ مارچ میں درج ہوا تھا اور اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور اسی دوران ‘ان کے وارنٹ جاری ہوئے تھے، ان کی گرفتاری کے لیے عدالتی حکم موجود تھا’۔

وزیراعظم کے ترجمان نے کہا کہ ‘ہم درخواست گزار نہیں ہیں لیکن انصاف ہوگا’۔

انہوں نے کہا کہ مارچ میں درج کی ایف آئی آر صرف ایک کیس نہیں ہے بلکہ 2008 اور 2013 میں بھی درجنوں مقدمات درج کیے گئے تھے اور یہ مقدمات شیریں مزاری کے پورے خاندان کے خلاف درج کیے گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق وفاقی وزیر ‘بدزبانی بھی کرتی رہی ہیں’۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطااللہ تارڈ کا کہنا تھا کہ ‘پی ٹی آئی گھبرانا نہیں ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘آپ نے 800 کنال زمین لے لی اور اب آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے کپڑے پھاڑے گئے’۔

اظہار مذمت

پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے شیریں مزاری کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ‘ہماری جماعت کی سینئر رہنما شیریں مزاری کو اطلاعات کے مطابق ان کے گھر کے باہر سے فاشسٹ حکومت کی جانب سے گرفتار کیا گیا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘شیریں مزاری مضبوط اور نڈر ہیں، اگر امپورٹڈ حکومت سمجھتی ہے کہ اگر وہ اس فاشزم کے ذریعے ان پر ظلم کر سکتے ہیں تو انہیں نے غلط حساب لگایا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری تحریک مکمل طور پر پرامن ہے لیکن یہ فاشسٹ امپورٹڈ حکومت ملک کو افراتفری کی طرف دھکیلنا چاہتی ہے’۔

عمران خان نے کہا کہ ‘اگر معیشت کو تباہ کرنا کافی نہیں ہے تو اب وہ انتخابات سے بچنے کے لیے انارکی پھیلانا چاہتے ہیں’۔

سابق وزیراعظم نے اعلان کیا کہ ‘ہم آج احتجاج کریں گے اور کل کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد اپنے لانگ مارچ کا اعلان کروں گا’۔

پی ٹی آئی پنجاب کے صدر شفقت محمود نے شیریں مزاری کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے اس سے ‘غیرقانونی اور اغوا کا بدترین واقعہ’ قرار دیا۔

انہوں نے اعلان کیا کہ پارٹی رات 8 بجے لاہور میں لبرٹی چوک پر احتجاج کرے گی۔

پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب نے بھی شیریں مزاری کی گرفتاری کی مذمت کی اور کہا کہ ‘شریں مزری کے ساتھ مرد پولیس اہلکاروں نے بدتمیزی کی ہے اور ان کو گھسیٹ کر گرفتار کرکے لے گئے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘چند روز قبل بھی ان کے گھر اہلکار گئے تھے، شیریں مزاری ایک جاندار آواز ہے جو اپنا مؤقف بلا خوف پیش کرتی ہیں، یہ حکومت خوفزدہ ہوگئی ہے، ایسے ہتھکنڈوں سے ہمارے حوصلے پست نہیں ہوں گے’۔

سابق وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے کہا کہ ‘شرم و حیا سے عاری، شوباز اور درباری شیریں مزاری کو گرفتار کرکے ثابت کر رہے ہیں، ان کے ہاتھوں کوئی محفوظ نہیں ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘انارکی اور خانہ جنگی ان کا اصل ہدف ہے، شیریں مزاری کو برسرعام اہلکاروں نے پیٹا اور گھسیٹا’۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے ٹوئٹ میں کہا کہ شیریں مزاری ‘کی گرفتاری غلط ہے’ اور ان پر کوئی الزام نہیں تھا۔

پی پی پی سینیٹر مصطفیٰ کھوکھر نے شدید مذمت کی اور کہا کہ گرفتاری شرم ناک اور بدترین سیاسی انتقام ہے۔

صحافی مظہرعباس نے کہا کہ ‘شیریں مزاری موجودہ حکومت کے تحت پہلی سیاسی قیدی ہیں، سیاسی رہنما اور حکومتیں ماضی سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘میں ان کے نکتہ نظر سے اتفاق نہیں کرتا لیکن ان کی گرفتاری اور ان کے ساتھ ہونے والے سلوک کی شدید مذمت کرتا ہوں’۔

صحافی عاصمہ شیرازی نے کہا کہ یہ عمل انتہائی قابل مذمت ہے اور ہراسانی ہے۔

گرفتاری حکومت کی طرف سے اعلان جنگ ہے، فواد چوہدری

اس ضمن میں بات کرتے ہوئے سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ کچھ دیر قبل میری شیریں مزاری سے بات ہوئی تھی اور ہم پشاور میں کور کمیٹی کے اجلاس میں جانے کے لیے منصوبہ بنارہے تھے اس کے کچھ دیر بعد مجھے فون آیا کہ ان کے گھر کے باہر بہت لوگ جمع ہیں اور انہیں گھر سے اٹھایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا شیریں مزاری نہ صرف ایک سیاسی جماعت کی نمایاں رہنما ہیں بلکہ ایک استاد اور دانش ور ہیں ان کا دنیا میں بہت احترام ہے اور انسانی حقوق کی وزیر اور رضاکار کی حیثیت سے ان کی بہت سے خدمات ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ اس حکومت کے غنڈوں نے ایک خاتون کو جس طرح گھر کے اندر سے اٹھایا، ان پر تشدد کیا گیا، ان کے کپڑے پھاڑے گئے اور جس بہیمانہ طریقے سے انہیں گاڑی میں بٹھایا گیا اسے گرفتار نہیں اغوا کہیں گے۔

رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمیں ان کے بارے میں کچھ علم نہیں کہ وہ کہاں ہیں، یہ انسانی حقوق کی بڑی خلاف ورزی ہے، یہ حکومت کی جانب سے اعلان جنگ ہے تو ہماری جانب سے بھی اعلان جنگ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بارے میں عمران خان کو آگاہ کردیا ہے، اب اگر لڑائی ہونی ہے تو پھر لڑائی ہی ہونی ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ ہم نے اپنے وکلا کو ہدایت کردی ہے وہ فوری حبس بیجا کی پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کریں گے۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ یہ حکومت اتنی بوکھلائی ہوئی ہے کہ اس نے پہلا وار ہماری پارٹی کی ایک خاتون پر کیا ہے یہ حواس باختہ ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جن بہیمانہ طریقے سے انہیں اغوا کیا گیا ہے اس کی ہم مذمت کرتے ہیں اور جلد ہی لائحہ عمل تشکیل دے کر عوام کو آگاہ کریں گے۔

عمران خان کو بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے، شیخ رشید

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ حکومت نے انارکی پھیلانے اور سیاسی فضا کو خراب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ گرفتاریوں کا یہ سلسلہ 3 سے 4 روز تک جاری رہے گا اور یہ عمران خان کو بھی گرفتار کرسکتے ہیں۔

سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ قوم کو نکلنا ہوگا لانگ مارچ کامیاب بنانے کے لیے، انہوں نے حالات خراب کرنے ہیں اور رسوا ہو کر انہیں جانا ہے اور پنجاب میں حکومت ہی کوئی نہیں ہے، یہ اتنا انتشار اور خلفشار پھیلانا چاہتے ہیں کہ جمہوریت کو ہی خطرات لاحق ہوجائیں۔

کل کور کمیٹی کے اجلاس میں جو فیصلہ ہوگا اس کے بعد ہی لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024