خواتین کے اثاثہ جات ان کی رضا مندی کے بغیر فروخت نہیں ہوسکتے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ غیر تعلیم یافتہ، پردہ نشین خواتین کو بغیر کسی پیشہ ورانہ، آزادانہ مشورے یا انہیں سمجھائے بغیر جائیداد کے بڑے حصے سے محروم کرنا قانون کے مطابق نہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محمد علی مظہر نے فیصلے میں کہا کہ اصل نکتہ یہ ہے کہ جائیداد کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے سول جج اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے 5 اپریل 2019 کے بیک وقت مسترد کیے جانے والے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔
یہ کیس زیب النسا اور حمیدہ بی بی کے وراثتی زمین کی 'گفٹ ڈیڈ' سے متعلق ہے، دونوں خواتین غیرتعلیم یافتہ اور پردہ نشین ہیں، جن سے ان کے بھائی نے دھوکا دہی اور غلط بیانی سے سادہ کاغذ پر دستخط کروا کر گفٹ ڈیڈ تیار کرلی تھی۔
فیصلے میں بتایا گیا کہ ٹرائل کورٹ میں پیش کیے جانے والے تمام ثبوتوں سے واضح ہوتا ہے کہ خواتین کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کن دستاویزات پر دستخط کرنے جارہی تھیں، ان کے بھائی نے ناخواندگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زمین کو بطور تحفہ اپنے حق میں کرنے کا عمل کیا۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان ہائیکورٹ کا خواتین کے وراثتی حق کو محفوظ بنانے پر زور
فیصلے میں کہا گیا کہ کوئی بھی ریکارڈ پیش نہیں کیا جاسکا جس سے ثابت ہوسکے کہ کسی عدم دلچسپی، غیر جانبداری یا غیر منسلک شخص نے تحفے کے معاہدے کو غیرتعلیم یافتہ پردہ نشین خواتین کو پڑھ کر سنایا تھا، اس طرح کے دستاویزات سے ناخواندہ، پردہ نشین خواتین کے مفادات کو شدید خطرات ہوتے ہیں۔
مزید بتایا گیا کہ ایسی خواتین کے لیے گواہی اور عمل درآمد کی توثیق کی ضرورت ہوتی ہے کہ انہیں آزادانہ اور غیر متعصبانہ مشورے کے ساتھ مزید تصدیق اور یقین دہانی کروائی گئی ہو اور لین دین کے نتائج، اثرات اور آخری فیصلہ مکمل طور پر بتایا اور سمجھایا گیا ہے۔
فیصلے کے مطابق پردہ نشین یا غیر تعلیم یافتہ خواتین سے لین دین کرنے کی درخواست کرنے والے شخص پر ہمیشہ ثبوت پیش کرنے کا بوجھ ہوگا اور اُسی شخص کو ثابت کرنا ہوگا کہ اس نے دستاویز کو لین دین کے نتائج کو ذہن نشین کروانے کے بعد عمل میں لایا ہے۔
مزید بتایا گیا کہ یہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ پردہ نشین یا ناخواندہ خاتون کی جانب سے کسی بھی دستاویز کی کارروائی کرتے وقت دستاویز کے واضح شواہد پر مکمل تسلی کرنا چاہیے کہ دراصل، انہیں یا ان کی جانب سے تقرر کردہ وکیل کی جانب سے ان کو دستاویز کی نوعیت کے بارے میں مکمل طور پر سمجھا دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہوگا، سپریم کورٹ
فیصلے میں مختلف عدالتی کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ جو شخص فائدے کا دعوی کر رہا ہے اس پر ثابت کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ خواتین کو کافی حد تک آزاد ذہن کے ساتھ سمجھا دیا گیا ہے۔
فیصلے کے مطابق لین دین جائز اور شکوک و شبہات سے بالاتر اسی صورت میں ہو سکتا ہے، جب یہ ثابت کیا جاسکے کہ خاتون لین دین کی نوعیت اور اس کے ممکنہ نتائج سے پوری طرح باخبر اور آگاہ تھی، اور یہ کہ اسے کسی بھروسے والے شخص یا ذریعے سے آزادانہ مشورہ دے کر لین دین کے نتائج سے مکمل طور پر آگاہ کردیا گیا تھا۔