تربیلا ڈیم، چشمہ بیراج پر پانی کی سطح میں کمی نے ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجادی
حال ہی میں سندھ کے 3 بیراجوں پر پانی کی مجموعی دستیابی میں معمولی بہتری دکھائی دی لیکن تربیلا ڈیم اور چشمہ بیراج پر پانی کے بہاؤ کے تازہ ترین اعداد و شمار نے ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کی جانب سے جاری کردہ ایک ایڈوائزری نے صوبے کے لیے ایک تشویشناک منظرنامہ پیش کیا جس میں اعلیٰ حکام کو مشورہ دیا گیا کہ حالات بہتر ہونے تک وہ دریائی نظام میں دستیاب پانی کو مؤثر اور احتیاط کے ساتھ بغیر کیس ضیاع کے استعمال کریں۔
متعلقہ حکام کے لیے سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ پنجاب میں 2 متنازع لنک کینال، چشمہ-جہلم اور تونسہ-پنجند سندھ میں شدید قلت کے باوجود جاری ہیں، نہریں دریائے سندھ سے پانی کی آمد میں اضافہ کر رہی ہیں۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ تربیلا ڈیم میں گزشتہ روز 10 ہزار کیوسک (19 مئی کو 10 لاکھ 5 ہزار کیوسک اور 20 مئی کو 95 ہزار کیوسک کا اخراج) کا ایک بڑا اخراج ہوا، جس سے ڈیم کے ڈیڈ لیول پر پہنچنے کا خدشہ پیدا ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ: پانی کی قلت سے تباہ کن حالات
اس کا بہاؤ گزشتہ روز 77 ہزار 900 کیوسک ہو گیا جو 14 مئی کو 98 ہزار کیوسک تھا، یہ بہاؤ پنجاب اور سندھ میں تونسہ اپ اسٹریم استعمال کیا جانا ہے، ڈیم کی سطح 20 مئی کو ایک ہزار 406 فٹ تھی جبکہ 16 مئی کو ایک ہزار 414 فٹ تھی۔
سکردو میں درجہ حرارت غیر متوقع ہونے کی نشاندہی کرتا ہے، جو جمعرات کو27 ڈگری سیلسیس سے گر کر گزشتہ روز 21 ڈگری پر آگیا، اس کمی نے ارسا کو تازہ صورتحال پر صوبوں کے لیے الرٹ جاری کرنے پر مجبور کیا۔
ڈیم 22 فروری سے یکم مئی تک ڈیڈ لیول پر رہا جب فروری میں اس کی 2 سرنگوں کی مرمت کے دوران اس کے ذخیرے ختم ہو گئے، اب ارسا کی دستاویز کے مطابق واپڈا نے اپنے ڈیڈ لیول کے نشان کو 1.398 فٹ پر کر لیا ہے، محکمہ آبپاشی کے ایک عہدیدار نے کہا کہ تربیلا میں ڈیڈ لیول کو اوپر کرنا صورتحال کو مزید تشویشناک بناتا ہے۔
ارسا کے اعلان میں کہا گیا ہے کہ اس بات کا خدشہ ہے کہ رم اسٹیشنز پر پانی کی آمد میں ایک اور کمی اگلے 24 سے 45 گھنٹوں میں ملک کو اپنی لپیٹ میں لے گی کیونکہ تربیلا ایک بار پھر ڈیڈ لیول (ایک ہزار 398 فٹ) کو چھو سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: پانی کی قلت: سندھ کو ’آفت زدہ‘ صوبہ قرار دینے کا مطالبہ
ارسا ایڈوائزری نے کہا کہ کمی مزید صوبوں میں پھیل جائے گی جس میں پنجاب میں 4 سے 5 روز اور سندھ میں 10 سے 12 روز کا وقفہ ہے۔
انڈس ریور سسٹم میں تربیلا ڈیم اور چشمہ بیراج میں کمی دیکھی گئی، سکھر بیراج کنٹرول روم کی دیکھ بھال کرنے والے عزیز سومرو نے کہا کہ اس کے علاوہ دریائے کابل میں آمد نے بھی اخراج میں کمی ریکارڈ کی ہے جو کہ دریائے سندھ میں بہاؤ کو بڑھاتی ہے۔
بیراج صوبے کی زراعت کے لیے زندگی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ 7 بڑی نہروں کو پانی فراہم کرتا ہے۔
ایڈوائزری میں بتایا گیا کہ تربیلا، چشمہ اور منگلا میں دستیاب اسٹوریج کا جزو صرف 0.344 ایم اے ایف، یہ رم اسٹیشنز پر گرتے ہوئے ندی کے بہاؤ کو بڑھانے کے لیے کافی نہیں ہے، یہ پچھلے سال 0.995 ایم اے ایف تھا جبکہ 10 سالہ اوسط 3.195 ایم اے ایف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ میں پانی کی سنگین قلت کے باوجود پنجاب میں دو متنازع نہریں کھول دی گئیں
چشمہ بیراج میں پانی کی سطح میں کمی کے سندھ پر اثرات ایک ہفتے میں واضح ہو جائیں گے، چشمہ بیراج پر بہاؤ میں تشویشناک کمی نوٹ کی گئی جو کہ آبی ذخیرے کا کام کرتا ہے، 18 مئی کو نیچے کی جانب بہاؤ 12 لاکھ 2000 کیوسک ریکارڈ کیا گیا تھا جبکہ 20 مئی کو یہ 11 لاکھ 5000 تھا۔
چشمہ بیراج وہ مقام ہے جہاں سندھ اپنے بیراجوں کے لیے نشان لگاتا ہے، اس کے بعد بہاؤ گڈو بیراج تک پہنچنے سے پہلے تونسہ کی جانب بڑھتا ہے۔
دریائے کابل میں بہاؤ (جو بڑے پیمانے پر دریائے سندھ کے لیے معاون بہاؤ سمجھا جاتا ہے) گزشتہ ہفتے کے دوران 30 ہزار کے قریب رہنے کے بعد 20 مئی کو 29 ہزار 400 کیوسک تک گر گیا۔
کابل کا سب سے زیادہ اخراج 6 مئی کو 52 ہزار 700 کیوسک ریکارڈ کیا گیا، یہ اعداد و شمار سندھ کے لیے اچھے نہیں ہیں، 11 مئی تک صوبے کے 3 بیراجوں پر مجموعی طور پر 62.2 فیصد کی کمی دیکھی گئی تھی لیکن جمعہ کو یہ 43 فیصد تک گر گئی، کوٹری میں 66.5 فیصد اور گدو میں 51.8 فیصد کمی دکھائی گئی، سکھر بیراج کا تناسب 32 فیصد رہا۔
پنجاب کو کم قلت کا سامنا
پانی کی دستیابی کا منظر نامہ تاریک نظر آتا ہے، سندھ کے احتجاج کے باوجود لنک کینال دریائے سندھ سے پانی نکالتے رہے، سی جے لنک کینال 10 مئی کو کھولی گئی اور اس میں سندھ سے 958 کیوسک کا بہاؤ چھوڑا گیا، یہ بہاؤ اگلے دن ٹی پی کے کھلنے کے ساتھ 2 ہزار کیوسک تک بڑھ گیا جس کا بہاؤ 2 ہزار 404 کیوسک تھا۔
اس کے بعد سے دونوں نہروں سے پانی کا اخراج مسلسل بڑھ رہا ہے تاکہ پنجاب کے جہلم-چناب زون کو پانی فراہم کیا جا سکے۔
دونوں نہروں سے 13 مئی تک مسلسل 2 ہزار سے زائد پانی کا بہاؤ جاری رہا جبکہ 14 مئی کو ٹی پی لنک کینال کو 8 ہزار 757 کیوسک اور سی جی کو 3 ہزار 94 کیوسک فراہم کیا گیا، 16 مئی کو سی جے نے 9 ہزار 220 کیوسک اور 9 ہزار 54 ٹی پی کیوسک واپس لے لیا، 17 مئی کو 2 نہروں کے لیے ریڈنگ بالترتیب 12 ہزار کیوسک اور 9 ہزار 196 کیوسک ہو گئی، 20 مئی کو سی جے نے 9 ہزار 318 کیوسک اور 11 ہزار 828 ٹی پی کیوسک نکالا۔
آپریشن نے سندھ کو ایک بار پھر ارسا کے چیئرمین کو پانی کی منصفانہ تقسیم کے لیے خط لکھنے پر مجبور کیا، محکمہ آبپاشی کے ایک عہدیدار نے ارسا کو لکھے گئے خط میں کہا ’ارسا اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ سندھ نے یکم اپریل سے 10 مئی تک اپنے حصے سے بہت کم پانی استعمال کیا۔
یہ بھی پڑھیں: گدو اور تونسہ بیراج میں پانی کا بہاؤ ’کم‘ ہونے سے متعلق سندھ کا دعویٰ درست ثابت
ان کے مطابق سندھ میں شارٹ فال 45 فیصد تک زیادہ ہے جب کہ پنجاب میں یہ صرف 7 فیصد ہے۔
پنجاب میں نہریں 93 ہزار 774 کیوسک استعمال کر رہی ہیں جبکہ پانی کے معاہدے کے تحت ایک لاکھ 800 کیوسک مختص کیا گیا تھا۔
سندھ حکومت نے ارسا کے چیئرمین پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ صوبے کو اس کے حصے کا پانی ملے، ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کو دیکھیں کہ دریائے سندھ سے جہلم چناب (جے سی) سسٹم میں پانی کی منتقلی نہ ہو۔
کراچی کیلئے بھی پانی نہیں؟
ایک اور خط کے ذریعے سندھ حکومت نے ارسا کے سربراہ کو آگاہ کیا کہ 16 مئی سے سندھ کا نشان ایک لاکھ کیوسک تھا لیکن اسے 18 مئی کو چشمہ سے کم صرف 85 ہزار کیوسک موصول ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اس قلت نے کسانوں میں ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے اور زیادہ تر جگہوں پر پانی پینے کے لیے بھی دستیاب نہیں۔
خط میں متنبہ کیا گیا کہ کینجھر جھیل کی سطح جو کراچی میٹروپولیٹن کو پانی فراہم کرتی ہے، بہت تیزی سے گر رہی ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کراچی کو سپلائی کرنے کے لیے جھیل میں پانی نہیں ہوگا، یہ مستقبل قریب میں بدامنی کا باعث بن سکتا ہے۔