کیا آپ نے 80 ارب روپے کا پیزا کھایا ہے؟
22 مئی 2010ء امریکی شہر فلوریڈا میں ایک خوشگوار دن تھا۔ دھوپ نکلی ہوئی تھی لیکن ہوا بھی چل رہی تھی۔ موسم انتہائی مناسب تھا۔ بچے خوش تھے اور اچھل کود کررہے تھے۔ لازلو ہینیز (Laszlo Hanyecz) نے بچوں کو خوشخبری سنائی کہ آج انہیں گھر کا پکا کھانا نہیں کھانا پڑے گا بلکہ آج انہیں پیزا کھلایا جائے گا۔
بچے یہ سن کر بہت خوش ہوئے کہ آج پیزا پارٹی ہوگی۔ لازلو کے ذہن میں آج ایک نیا آئیڈیا آیا تھا، ایک ایسا کام جو اسے 10 برس بعد دنیا کے مشہور ترین افراد میں شامل کرنے کا سبب بننے والا تھا۔
لازلو کے پاس کمپیوٹر میں کئی ہزار بٹ کوائن موجود تھے، لیکن ان کے بدلے کچھ بھی خریدنا ممکن نہیں تھا، نہ آن لائن کوئی ایسی سہولت موجود تھی اور نہ ہی کسی دکان وغیرہ سے ان ورچوئل سکّوں کے بدلے کچھ خریدنا ممکن تھا۔ لیکن لازلو قسمت آزمانے کا فیصلہ کرچکے تھے، لہٰذا انہوں نے کرپٹو کرنسی کا شوق رکھنے والے افراد کی ایک ویب سائٹ پر اعلان کیا کہ
’میں اس شخص کو 10 ہزار بٹ کوائن دوں گا جو مجھے 2 بڑے پیزا گھر کی دہلیز تک پہنچائے گا۔ پیزا خواہ کسی دکان سے خریدے ہوگئے ہوں یا گھر میں بنے ہوئے ہوں، لیکن یہ معیاری اور بڑے ہونے چاہئیں تاکہ میں اگلے دن بھی کھا سکوں کیونکہ مجھے اگلی صبح بچا ہوا پیزا کھانا بہت پسند ہے۔ مجھے پیاز، مرچ، ٹماٹر اور کالی مرچوں سے بنے ہوئے معیاری پیزے پسند ہیں، اور مچھلی کی ٹاپنگ والا پیزا مجھے پسند نہیں ہے۔‘
اس اعلان کے تھوڑی ہی دیر بعد 19 سالہ طالبعلم جیریمی اسٹورڈیوینٹ (Jeremy Sturdivant) نے لازلو کو آفر کی کہ وہ انہیں پاپا جونز نامی پیزا فرنچائز سے 2 پیزے خرید کر دے سکتا ہے۔ لازلو نے فوری ہامی بھرلی اور 2 پیزا کے بدلے 10 ہزار بٹ کوائن اس صارف کو ٹرانسفر کردیے۔
لازلو اور اس کی فیملی نے جی بھر کر پیزا کھائے اور خوشی منائی۔ یہ بٹ کوائن کے آغاز کا زمانہ تھا اور ان 10 ہزار بٹ کوائن کی قیمت محض چند ڈالر تھی، لیکن 10 برس بعد بٹ کوائن نے ریکارڈ قائم کرتے ہوئے بلندیوں کو چھوا تو ایک بٹ کوائن کی قیمت 65 ہزار ڈالر تک پہنچ گئی، یوں وہ 2 پیزے جو 10 ہزار ڈالر میں خریدے گئے تھے، لازلو کو پاکستانی روپوں میں 80 ارب سے زیادہ کے پڑے۔
یہ ایک ایسی بات تھی جس کا پچھتاوا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لازلو کی زندگی کا حصہ بن گیا، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ بٹ کوائن کے ذریعہ خریداری کرنے والے دنیا کے پہلے آدمی بن گئے اور یہ ان کی وجہ شہرت بھی بن گئی۔ اسی واقعہ کی یادگار کے طور پر 22 مئی کو پیزا بٹ کوائن ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔
لیکن یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ 10 ہزار بٹ کوائن بیچنے اور خریدنے والے دونوں ہی اس کی بڑھتی قیمت سے فائدہ نہیں اٹھا سکے، کیونکہ جیریمی نے کچھ عرصے بعد ان بٹ کوائن سے ایک تفریحی دورہ کیا اور یوں مستقبل کے ارب پتی ہونے سے محروم رہ گئے۔
لازلو کہتے ہیں کہ انہیں اس پر کوئی پشیمانی نہیں، بلکہ فخر ہے کہ انہوں نے ایک ایسے کام کی ابتدا کی جو آج پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ جبکہ 2 پیزوں کے بدلے 10 ہزار بٹ کوائن حاصل کرنے والے جیریمی جنہوں نے اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ پورے امریکا کی سیر کی، وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ ان بٹ کوائنز کو سرمایہ کاری کے طور پر رکھتے تو شاید آج صورتحال مختلف ہوتی، لیکن انہیں اس پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے، جو ہونا تھا وہ ہوچکا، لیکن کبھی کبھار اس سارے واقعہ کی یاد بہرحال انہیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
کرپٹو کرنسی کی دنیا آج کم و بیش 2 کھرب ڈالر کی مارکیٹ ہے اور یہ ساری سرمایہ کاری گزشتہ 10 سے 12 برس میں کی گئی ہے۔ اس کا باقاعدہ آغاز لازلو اور جیریمی کی کہانی سے ہوا۔ اُس وقت جو بٹ کوائن بمشکل 2، 4 ڈالر کا تھا وہ اب 40 ہزار ڈالر سے زیادہ قیمتی ہے۔ اس عرصے میں سیکڑوں لوگ کروڑ اور ارب پتی ہوئے اور ان گنت لوگ عرش سے فرش پر بھی آئے، لیکن اس سارے کھیل میں سب سے دلچسپ وہ کہانیاں ہیں جو کرپٹو کرنسی کی مرہون منت وجود میں آئیں۔
متعدد لوگوں کے پاس کمپیوٹر وغیرہ میں اس وقت کے بٹ کوائنز محفوظ کیے ہوئے پڑے تھے جب اس کی قیمت صفر تھی، لیکن جب بٹ کوائن کی قیمت ہزاروں اور لاکھوں میں چلی گئی تو بہت سے لوگ بٹ کوائن کے مالک ہوتے ہوئے بھی اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ کسی کا کمپیوٹر گم ہوگیا، کسی نے لیپ ٹاپ بیچ دیا، کسی نے اپنی ہارڈ ڈرائیو کچرا دان میں پھینک دی اور بہت سے ایسے بھی تھے جن کی رقم کسی ایکسچینج میں تھی اور ایکسچینج کا مالک ہی فوت ہوگیا اور اس کے علاوہ پاس ورڈ بھی کسی کو معلوم نہیں تھا۔ یہ وہ صارفین ہیں جو آج تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔
برطانیہ کے شہری جیمز ہاولز (James Howells) کے 50 ارب مالیت کے 8 ہزار بٹ کوائن کوڑے کے ڈھیر میں کہیں دفن ہیں اور بسیار کوشش کے باوجود انہیں ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ جیمز ہاولز اپنی شریکِ حیات اور 3 بچوں کے ہمراہ ایک اوسط گھرانے کے فرد تھے۔ بٹ کوائن کے آغاز کا زمانہ تھا اور کمپیوٹر کی فیلڈ سے تعلق کے سبب جیمز ان ابتدائی لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے سادہ سے کمپیوٹر پر بٹ کوائن مائن کیے۔
بٹ کوائن مائن کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ پیچیدہ ریاضیاتی معمے حل کرتے ہیں جس کے بدلے آپ کو بٹ کوائن ملتے ہیں۔ اس کے لیے اب انتہائی طاقتور کمپیوٹرز کی ضرورت ہے، لیکن ابتدا میں یہ کام گھریلو اور سادہ سے کمپیوٹر پر بھی ممکن تھا۔ جیمز نے اپنے سادہ سے کمپیوٹر پر قریب 8 ہزار بٹ کوائن مائن کیے، لیکن چونکہ اس وقت یہ کوائن بیکار تھے اس لیے وہ انہیں کسی کام میں نہیں لاسکے۔ کچھ برسوں بعد جب جیمز کے کمپیوٹر پر شربت گر گیا تو انہوں نے کمپیوٹر تبدیل کرلیا لیکن جس ہارڈ ڈرائیو میں بٹ کوائن تھے، اسے گھر میں ہی کہیں محفوظ کرلیا۔
2013ء میں جیمز کا بیرون ملک سیاحت کا پروگرام بنا۔ جانے سے قبل انہوں نے گھر کی صفائی کا پروگرام بنایا۔ کوڑے کی ایک کالی تھیلی میں انہوں نے ناکارہ چیزوں کے ہمراہ بے احتیاطی کی وجہ سے ہارڈ ڈرائیو بھی ڈال دی۔ رات کو سونے سے قبل جیمز نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ صبح بچوں کو اسکول چھوڑتے وقت وہ کوڑا بھی لیتی جائیں۔ جیمز کی اہلیہ نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمہارا کام ہے میرا نہیں۔ اچانک جیمز کو یاد آیا کہ ہارڈ ڈرائیو بھی کوڑے والی تھیلی میں ہے جسے نکال لینا چاہیے۔ اس میں ضروری فائلز ہیں۔ بوجھل ہوتی پلکوں کی وجہ سے جیمز نے سوچا صبح پھینکنے سے قبل وہ ہارڈ ڈرائیو نکال لے گا، مگر اگلے دن جب دن چڑھے جیمز کی آنکھ کھلی تو اس کی شریک حیات نے بتایا کہ وہ کوڑا پھینک آئی ہے۔ بات آئی گئی ہوگی اور کچھ دنوں بعد جیمز اپنے دوستوں کے ہمراہ قبرص کی سیر پر چلا گیا۔
پورے سفر میں خلافِ توقع جیمز ہاولز کا مزاج برہم رہا۔ وہ دوستوں کے ہمراہ یہاں تفریح کے لیے آیا تھا، لیکن اس کی طبعیت میں مستقل بے چینی تھی۔ وہ کسی بھی طرح انجوائے نہیں کرسکا۔ اس کے دوست برہم تھے کہ وہ یہاں جس مقصد کے لیے آیا ہے اسی کو ہی فراموش کیے ہوئے ہے۔ چند ماہ بعد جیمز کو اپنی طبعیت کی بے چینی کی وجہ معلوم ہوگئی۔
بی بی سی پر اس نے ایک کہانی پڑھی کہ کس طرح ناروے کے ایک 29 سالہ نوجوان نے بٹ کوائن سے حاصل ہونے والے منافع کے عوض 4 لاکھ ڈالر کا ایک اپارٹمنٹ حاصل کیا تھا۔ جیمز فوراً اپنے کمپیوٹر کی طرف لپکا لیکن پھر اسے یاد آیا کہ ہارڈ ڈرائیو تو وہ کوڑے دان میں پھینک چکا ہے اور کوڑے دان سے وہ کوڑا شہر کے کوڑے کے ڈھیر میں کہیں دفن ہوگیا ہے۔
جیمز کے لیے یہ ایک ناقابلِ یقین اور پریشان کن صورتحال تھی۔ اسے خود پر یقین نہیں ہورہا تھا اور نہ ہی وہ کسی کو اپنی کہانی سنانے کے قابل تھا۔ اسی پریشانی اور گومگو کی کیفیت میں ایک ماہ بیت گیا۔ ایک ماہ بعد جیمز نے یہ بات اپنی شریکِ حیات کو بتائی جسے سن کر وہ بھی مبہوت رہ گئی۔ اسی کے کہنے اور ہمت دلانے پر جیمز کوڑے کے ڈھیر پر گیا جہاں ہزاروں ٹن کوڑا کسی برفانی تودے کی مانند زیرِ زمین اور بالائے زمین جیمز کا منہ چڑا رہا تھا۔
وہاں ڈیوٹی پر موجود منیجر نے بتایا کہ اب کوئی صورت ممکن نہیں ہے، لیکن جیمز کی کہانی سن کر اس نے کہا کہ شاید کوئی صورت ممکن ہو کیونکہ مختلف طرح کا کوڑا مختلف جگہوں پہ پھینکا جاتا ہے، لیکن چونکہ بہت دن گزر چکے تھے اس لیے اب ہارڈ ڈرائیو کی تلاش کے لیے سٹی کونسل کی اجازت ضروری تھی۔
یہاں سے جیمز کے لیے ایک ایسی دردناک کہانی کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔ ہر طرح کی کوشش کرلینے کے باوجود جیمز کو انتظامیہ کی طرف سے کوڑے کے پہاڑ میں ڈرائیو تلاش کرنے کی اجازت نہیں ملی جبکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان بٹ کوائنز کی قیمت بڑھتی گئی۔ جب بٹ کوائن بلند ترین سطح پر پہنچا تو اس وقت جیمز کے کوائنز کی قیمت 50 ارب روپے سے زیادہ ہوچکی تھی۔
جیمز نے انتظامیہ کو ان کوائنز سے حاصل ہونے والی رقم میں سے بہت بڑی رقم کی آفر کی، لیکن انتظامیہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ ماحولیاتی آلودگی اور شہر کی فضا خراب ہونے کی وجہ بتا کر انتظامیہ نے جیمز کو مستقل انکار کردیا اور تب سے جیمز اس کوڑے کے پاس سے حسرت بھری نگاہوں سے گزرتے ہیں جہاں ان کے اربوں روپے مدفون ہیں۔ ان پر ایسے دن بھی گزرتے ہیں جب وہ محلے کی دکان سے ادھار سامان لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ قسمت کی خوبی دیکھیے کہ اربوں روپے کوڑے کی نذر ہوئے اور آدمی ادھار سامان خریدنے پر مجبور ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ کرپٹو کی دنیا میں محض ناکامیوں کی داستانیں ہیں۔ کامیابی کی کہانیاں بھی ان گنت ہیں، لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت تک جتنے بھی بٹ کوائن مائن ہوئے ہیں ان کا پانچواں حصہ گمشدہ ہے اور بٹ کوائن کی چابی (KEY) اگر گم ہوجائے تو اس کی ریکوری کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔
کرپٹو کرنسی ڈیٹا پر نگاہ رکھنے والے ایک ادارے کے مطابق بٹ کوائن کے پہلے 12 برسوں میں 35 لاکھ بٹ کوائن گم ہوگئے۔ گمشدگی سے مراد یہ ہے ہے کہ یا تو پاس ورڈ بھول گیا ہے یا پھر جس ہارڈ ویئر میں وہ رکھے گئے تھے وہ ہارڈ ویئر ہی کھو گئے ہیں، جیسے اوپر کی کہانی میں بیان ہوا ہے۔
ہارڈ ویئر کھو جانا یا پھر پاس ورڈ بھول جانا تو قرین قیاس ہے، لیکن ان ہزاروں لوگوں کے لاکھوں کروڑوں ڈالر کا سوچیے جو اس وجہ سے ساری عمر ملنے سے رہے کہ اس ایکسچینج کا مالک ہی دنیا سے گزر گیا ہے۔
کینیڈا کی کرپٹو کرنسی ایکسچینج ’کواڈریگا‘ (QuadrigaCX) کے بانی 30 سالہ جیرالڈ کاٹن (Gerald Cotten) کی اچانک موت کی وجہ سے کمپنی تقریباً 19 کروڑ کینیڈین ڈالر مالیت کی ڈیجیٹل کرنسی تک رسائی سے محروم ہوگئی۔ جیرالڈ کی موت اس لیے بھی پُراسرار تھی کہ وہ ایک عام سمجھی جانے والی بیماری کے ہاتھوں اس وقت جان کی بازی ہار گئے جب وہ سیاحت کرنے ہندوستان میں آئے ہوئے تھے اور ان کی موت کا اعلان ایک ماہ بعد ان کی اہلیہ نے کیا۔
ہزاروں لوگ جنہوں نے کمپنی میں پیسہ لگایا ہوا تھا یکلخت دیوالیہ ہوگئے کیونکہ جیرالڈ کی اہلیہ نے حلفاً عدالت میں بیان دیا کہ جیرالڈ کے لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ صرف جیرالڈ کو ہی معلوم تھا اور وہ اکیلے ہی سارے فنڈز کے معاملات سنبھالتے تھے۔
بعدازاں سامنے آنے والی دستاویز اور جیرالڈ کے لیپ ٹاپ کے فورنزک تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ کواڈریگا ایکسچینج میں کوئی کرپٹو کرنسی موجود ہی نہیں تھی۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ جیرالڈ نے ساری رقم دیگر بڑی ایکسچنجز میں منتقل کرکے ٹریڈنگ کی اور ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے ساری رقم اجاڑ بیٹھا۔ وہ لوگ جنہیں موہوم سی امید تھی کہ جیرالڈ کے لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ معلوم ہونے پر ان کی رقم واپس آئے گی وہ سارے مایوسی کی مزید دلدل میں پھنس گئے۔
کرپٹو کرنسی کی دنیا بہت بڑی دنیا ہے۔ اس میں ناتجربہ کار اور معمولی سرمایہ کاری کا نتیجہ عموماً نقصان ہی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ سرمایہ کاری کرنے سے قبل پوری تحقیق کرنا اور علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس فیلڈ میں فراڈ بہت عام ہوچکا ہے اور پاکستان جیسے ملک میں جہاں قوانین پر عمل درآمد کی روایت بہت تابناک نہیں وہاں اگر آپ اپنے قیمتی سرمائے سے محروم ہوتے ہیں تو اس کی واپسی کی کوئی صورت ممکن نہیں ہوتی۔
تبصرے (8) بند ہیں