مسجد نبوی ﷺ واقعے میں توہین مذہب کے مقدمے کی ضرورت نہیں، عدالت
اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے مشاہدہ کیا ہے کہ مسجد نبویﷺ کے واقعے کے حوالے سے رجسٹرڈ پہلی اطلاعاتی رپورٹ میں نامزد چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان سمیت پارٹی قیادت واقعے کے وقت وہاں موجود نہیں تھی اور نہ ہی سعودی حکومت نے انہیں نامزد یا ان کی تحویل طلب کی ہے، لہٰذا ان کے خلاف توہین مذہب کے مقدمے کے اندراج کی ضرورت نہیں ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری اور دیگر کی جانب سے مذکورہ واقعے کے سلسلے میں درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کے لیے دائر کی گئی ایک جیسی درخواستوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری کردہ تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ شہریوں کی جانب سے درج کرائی گئی شکایات کے مندرجات پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف توہین مذہب کا سیکشن لگانے کے لیے ناکافی ہیں۔
ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ ضلع فیصل آباد میں درج ہونے والی ایف آئی آر کا سادہ مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مذکورہ جرائم کا تعلق پی ٹی آئی کی نامزد قیادت سے نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے جاری کردہ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ یہ تسلیم شدہ مؤقف ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اس مقام پر موجود نہیں تھی جہاں یہ واقعہ پیش آیا، اس بات سے بھی انکار نہیں کیا گیا کہ سعودی عرب کے حکام اس گھناؤنے طرز عمل کا نوٹس لے چکے ہیں اور واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی بھی شروع کی جاچکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مسجد نبوی واقعے میں توہین مذہب کے غلط استعمال کی مذمت
مزید یہ کہ حکومت کو سعودی حکام کی جانب سے پی ٹی آئی قیادت کے ملوث ہونے کے حوالے سے کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
عدالت نے کہا کہ مذہبی جذبات کا احترام کیا جانا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 7 کے تحت اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات کرے کہ مذہب کی بنیاد پر استحصال نہ ہونے دیا جائے اور اسے ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مشاہدہ کیا کہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ماضی میں ریاستی اداروں کے ذریعے مذہب کے نام پر استحصال ہوتا رہا ہے اور اس طرح کے استحصال نے بے گناہوں کی زندگیوں کو شدید خطرات سے دوچار کیا ہے۔
پی پی سی کے باب 15 میں بیان کردہ جرائم کے تحت جھوٹے/جعلی مقدمات کے غلط استعمال اور اندراج نے عدم برداشت کا ماحول پیدا کیا اور ماورائے عدالت قتل کی حوصلہ افزائی کی۔
مزید پڑھیں: مسجد نبوی ﷺ واقعہ: شیخ رشید کے بھتیجے کی ضمانت منظور
انہوں نے 2017 میں ہجوم کے ہاتھوں مشال خان کا بہیمانہ قتل اور حال ہی میں سیالکوٹ میں سری لنکن شہری پریانتھا کمارا دیاوادنا کا حوالہ دیا اور انہیں ایسے بےشمار واقعات میں سے محض چند مثالیں قرار دیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مشاہدہ کیا کہ اس طرح قانون ہاتھ میں لے کر قتل کے واقعات بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی بدترین شکل ہیں اور آئین کے مطابق چلنے والے معاشرے میں ناقابل برداشت ہیں۔
عدالتی حکم میں کہا گیا کہ پی پی سی کے باب 15 میں بیان کردہ جرائم کے سلسلے میں جھوٹے/جعلی فوجداری مقدمات کا لاپرواہی سے اندراج بے گناہ افراد کو سنگین خطرے سے دوچار کرتا ہے، لہٰذا یہ آئین کے تحت فراہم کردہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
عدالتی حکم میں مزید کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 7 کے تحت ریاست اور ہر ایک ادارے کی ذمہ داری اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ آئین کے باب 15 میں بیان کردہ جرائم کے سلسلے میں فوجداری مقدمات کے اندراج میں لاپرواہی سے گریز کیا جائے اور ان سے مؤثر طریقے سے نمٹا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: مسجد نبوی ﷺ واقعہ: شیخ رشید کے بھتیجے کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
عدالت نے وزارت داخلہ کو متعلقہ صوبائی حکومتوں سے رپورٹس طلب کرنے کی ہدایت کی، مزید برآں وفاقی حکومت کو ہدایت کی گئی کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ پی ٹی آئی قیادت کے خلاف اس وقت تک کوئی مقدمہ درج نہ کیا جائے جب تک کہ ان کے واقعے میں ملوث ہونے کی مصدقہ اطلاعات نہ ہوں۔
درخواست گزاروں کی جانب سے اعتراض کیا گیا تھا کہ اس واقعے کے حوالے سے سیاسی بنیادوں پر مجرمانہ مقدمات درج کیے جارہے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی حکومت سے کہا کہ فوجداری مقدمات کے اندراج کے تناظر میں مذہبی جذبات کے استحصال یا استعمال کے مبینہ تاثر کو ختم کرنے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔