عمران خان کا الزام: پاکستان سے تعلقات میں جھوٹ کو حائل نہیں ہونے دیں گے، امریکا
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ امریکا پاکستان کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کی راہ میں پروپیگنڈا، غلط معلومات اور جھوٹ کو حائل نہیں ہونے دے گا۔
نیڈ پرائس نے یہ بات ایک پریس بریفنگ کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے عہدے سے برطرف کیے جانے کا الزام امریکا پر عائد کرنے اور امریکا مخالف مہم چلانے سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہی۔
ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ ’سابق وزیر اعظم عمران خان اب بھی اپنی وزارت عظمیٰ سے بے دخلی کا ذمہ دار امریکی کوششوں کو ٹھہرا رہے ہیں اور امریکا مخالف مہم کی قیادت کر رہے ہیں، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان کی امریکا مخالف مہم سے پاکستان اور امریکا کے درمیان سفارتی تعلقات میں دراڑیں پیدا ہورہی ہیں یا اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا؟
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اب بھی امریکا کا اسٹریٹیجک پارٹنر ہے، ترجمان محکمہ خارجہ
جواب میں نیڈ پرائس نے کہا کہ ’ہم پروپیگنڈے، غلط معلومات اور جھوٹ کو پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ ہمارے دو طرفہ تعلقات کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیں گے، پاکستان کے ساتھ تعلق کی ہم قدر کرتے ہیں‘۔
گزشتہ ماہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے والے عمران خان نے الزام عائد کیا کہ ان کی جانب سے آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کرنے کے سبب اس تحریک کو امریکا نے مقامی لوگوں کی معاونت سے تیار کیا۔
برطرف کیے جانے سے چند روز پہلے 27 مارچ کو سابق وزیر اعظم نے اسلام آباد میں ایک ریلی میں ایک خط لہرایا تھا، انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس خط میں ان کی حکومت کو گرانے کے لیے تیار کی گئی غیر ملکی سازش کے ثبوت موجود ہیں۔
مزید پڑھیں: الہان عمر پاکستان میں سرکاری دورے پر نہیں ہیں، نیڈ پرائس
ابتدا میں عمران خان نے اس خط کے مندرجات کے بارے میں خاموشی اختیار رکھی، تاہم انہوں نے چند روز بعد اس وقت امریکا کا نام لیا جب ان کی حکومت کی برطرفی قریب نظر آئی۔
ان کے اس الزام کی بنیاد امریکا میں پاکستان کے اس وقت کے سفیر اسد مجید خان سے موصول ہونے والا ایک مراسلہ تھا جس میں انہوں نے جنوبی اور وسطی ایشیا کے امور کے معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو سے ملاقات کی اطلاع دی تھی۔
اسد مجید نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ ڈونلڈ لو نے متنبہ کیا کہ عمران خان کے عہدے پر برقرار رہنے کے اثرات پاکستان اور امریکا کے درمیان دو طرفہ تعلقات پر پڑیں گے، تاہم پینٹاگون اور محکمہ خارجہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غیرملکی سازش کے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان سے اتفاق کرتے ہیں، امریکا
قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی)، جس میں تمام سروسز چیفس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلیٰ انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ بھی شامل ہیں، نے 31 مارچ کو اس معاملے کو اٹھایا اور اسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں صریح مداخلت قرار دیتے ہوئے نام لیے بغیر اس ملک کے خلاف ’واضح ڈیمارش (احتجاجی مراسلہ)‘ جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔
تاہم اس فورم نے یہ واضح کیا کہ عمران خان کی زیرقیادت حکومت کو گرانے کے لیے کوئی غیر ملکی سازش نہیں کی گئی۔
دریں اثنا عمران خان اور ان کی پارٹی کا مؤقف ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے پیچھے غیر ملکی سازش تھی، انہوں نے 7 مئی کو ایک ویڈیو پیغام کے دوران الزام عائد کیا کہ ان کی حکومت گرانے کی سازش اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نے فوجی اڈوں کے مطالبے سے انکار کر دیا، انہوں نے عہدے سے برطرف کیے جانے کے بعد عوامی ریلیوں میں ان دعووں کو مختلف مواقع پر دہرایا۔
بلنکن-بلاول کال
بریفنگ کے دوران نیڈ پرائس سے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی جانب سے گزشتہ ہفتے پاکستان کے نئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو کی گئی کال کے بارے میں بھی سوال کیاگیا، جس میں امریکی عہدیدار نے بلاول بھٹو کو 8 مئی کو اقوام متحدہ کے فوڈ سیکیورٹی سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے واشنگٹن مدعو کیا تھا۔
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ بلاول بھٹو اجلاس میں بذات خود شرکت کے لیے جائیں گے یا ورچوئل خطاب کریں گے۔
اس معاملے پر بات کرتے ہوئے نیڈ پرائس نے کہا ’میرے پاس نیویارک میں اگلے ہفتے فوڈ سیکیورٹی کے اجلاس کے دوران کسی دو طرفہ ملاقات کی تفصیل نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی سیکریٹری اسٹیٹ کا وزیرخارجہ کو فون، تعلقات مستحکم کرنے کی خواہش کا اظہار
انہوں نے مزید کہا ’میں یہ بتا سکتا ہوں کہ سیکریٹری انٹونی بلنکن کا اپنے نئے پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ گزشتہ ہفتے رابطہ ہوا۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ کال کے دوران انٹونی بلنکن اور بلاول بھٹو نے امریکا اور پاکستان کے تعلقات کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر غور اور اس تعلق کو آگے بڑھانے اور مزید مضبوط کرنے پر بات کی۔
انہوں نے کہا کہ یہ وسیع البنیاد دوطرفہ تعلقات ہیں، انٹونی بلنکن نے افغانستان کے استحکام اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے امریکا اور پاکستان کے پختہ عزم پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ عموماً کی جانے والی تعارفی گفتگو کی طرح ایک جامع گفتگو تھی جس میں ہمارے اقتصادی تعلقات، تجارت اور سرمایہ کاری، آب و ہوا، توانائی، صحت اور تعلیم سمیت جاری مصروفیات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔