سندھ بھر میں نہریں خشک ہونے کے سبب فصلیں پیاسی ہوگئیں
روہڑی کینال کے چیف انجینئر کے دفتر کے باہر دھرنا دینے والے مظاہرین کے گروپ میں شامل ایک پریشان کسان نے کہا کہ آپ کو لگتا ہے کہ ہمارے پاس خریف فصلوں کی بوائی کے لیے زمینوں کی آبپاشی کے لیے پانی موجود ہے حتیٰ کہ ہمیں پینے کے لیے بھی پانی خریدنا پڑ رہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق روہڑی کینال سے پانی حاصل کرنے والے سب ڈویژن کمبوہ میں 13 ایکڑ زمین کے مالک رحیم کلوئی نے شکایت کی کہ آج ہمیں پینے کا پانی لینے کے لیے بھی 2 سے ڈھائی ہزار روپے فی ٹینکر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔
کلوئی، جو ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے کاشتکاروں میں شامل ہیں جو سندھ میں پانی کی شدید قلت سے پریشان ہیں۔
وہ اور ان کے ساتھی ضلع بدین کے آخری یا ٹیل کے علاقوں سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ روہڑی کینال کے چیف انجینئر کے دفتر کے باہر آبپاشی کے لیے پانی کی شدید قلت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے آئے، کیونکہ زیریں سندھ میں خریف سیزن کی بوائی اہم مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔
مزید پڑھیں: اس مرتبہ سندھ میں پانی کی قلت سے فصلوں کا کتنا نقصان ہوا؟
سندھ کے پیک سیزن، موسم گرما کی فصلوں کی کاشت کے دوران کینال کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ بہت کم ہے۔
پانی کی قلت خاص طور پر کپاس کی فصل کو متاثر کر رہی ہے۔
سندھ میں کپاس کی فصل کی پیدوار میں 2020 میں 18 لاکھ گانٹھوں کے مقابلے میں2021 میں 35 لاکھ گانٹھوں کی پیدوار کے بعد بہتری آنا شروع ہوئی تھی۔
محکمہ زراعت سندھ کے ڈائریکٹر جنرل ہدایت اللہ چھاجڑو نے کہا ہے کہ کپاس کی فصل کی بوائی کا ہدف 6 لاکھ 40 ہزار ہیکٹرز تھا جس کے مقابلے 6 مئی تک صرف 2 لاکھ 43 ہزار 200 ہیکٹرز پر بوائی کی جاسکی ہے۔
گزشتہ سال اسی عرصے میں فصل کی بوائی 3 لاکھ 78 ہزار 800 ہیکٹرز پر کی گئی تھی جو کہ رقبے میں 21 فیصد کمی ہے، اگر پانی کی شدید کمی برقرار رہی تو اس میں مزید کمی آسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ‘سندھ کو 60 برس میں پانی کی بدترین قلت کا سامنا ہے’
انہوں نے کہا کہ بوائی کے 20 دن بعد کپاس کی فصل کو پانی دینا ہوتا ہے جو کہ کافی جگہوں پر دستیاب نہیں ہے جس سے کھڑی فصلوں کو نقصان ہوتا ہے۔
فروری 2022 میں تربیلا ڈیم میں ٹنل تھری اور ٹنل فور میں ترقیاتی کام کے باعث پانی کی سطح ڈیڈ لیول پر تھی جس کے بعد سے خریف کے ابتدائی سیزن سے ہی پورے نظام میں پانی کی کمی کو ریکارڈ کیا گیا۔
سندھ کے وزیر برائے آبپاشی جام خان شورو نے کہا کہ ہم نے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (اِرسا) کو کہا تھا کہ اگر تربیلا ڈیم پر کام شروع کیا تو خریف کے ابتدائی سیزن کے لیے سندھ کو پانی نہیں مل سکے گا لیکن ہم وسیع تر مفاد کی خاطر رضا مند ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ بھر میں پانی کی قلت شدید ہو گئی ہے اور پانی کی تقسیم 1991 معاہدے کے تحت نہیں کی جارہی۔
سکھر بیراج میں پانی کی دستیاب کی اعداد و شمار کی روزانہ بنیادوں پر نگرانی کرنے والے حکام نے خبردار کیا کہ اگر اَپر کیچمنٹ میں درجہ حرارت میں اضافہ نہ ہوا اور بارشیں نہ ہوئیں تو جون میں صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔
مزید پڑھیں: تھرپارکر: 'زیر زمین 9 ارب کیو بک میٹر پانی کو قابل استعمال بنانا ممکن ہے'
انہوں نے وضاحت دی کہ پانی کی موجودہ قلت چشمہ بیراج میں پانی کی کمی کے باعث ہے جہاں پر پہلے پانی کی آمد دریائے کابل سے ہوتی ہے۔
واپڈا حکام نے تربیلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ کرنا شروع کر دیا ہے جہاں پر 2 مئی کو پانی کا ذخیرہ ایک ہزار 395 فٹ پر تھا جو کہ فروری 2022 سے ایک ہزار 395 فٹ پر ہی برقرار ہے۔
دریائے کابل میں چشمہ کے مقام پر پانی کے بہاؤ میں بہتری آئی ہے، جہاں پر اپریل میں یکے بعد دیگرے کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔
چشمہ بیراج پر 27 اپریل کو پانی کا بہاؤ 50 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا تھا جو 28 اپریل کو کم ہو کر 45 ہزار کیوسک، 29 اپریل کو کم ہوکر 38 ہزار 266 کیوسک اور 30 اپریل کو مزید کم کر 37 ہزار کیوسک رہ گیا تھا۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ پانی کے بہاؤ میں تیزی سے کمی کے شدید اثرات سندھ میں محسوس ہو رہے ہیں جو کہ دریائے سندھ کے پہلے بیراج گڈو کے بہاؤ سے ظاہر ہے۔
مزید پڑھیں : پاکستان میں پانی کی قلت کی باتوں میں کوئی سچائی نہيں؟
انچارج کنٹرول روم سکھر بیراج عبدالعزیز سومرو نے تین بیراجوں کی پانی کی قلت کو فیصد میں جانچنے کے بعد بتایا کہ سندھ میں 7 مئی تک 52 فیصد پانی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سکھر روہڑی اور نارا کینال میں پانی کی قلت بالترتیب 32 فیصد اور 30 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے، یہ دونوں نہریں سکھر بیراج کے بائیں جانب زمین کے بڑے حصے کو پانی فراہم کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ خیرپور فیڈر ایسٹ میں پانی کی کمی 49 فیصد، خیرپور فیڈر ویسٹ میں 43 فیصد، نارتھ ویسٹرن کینال میں 46.6 فیصد رہی جبکہ سکھر بیراج میں پانی کی مجموعی کمی 45 فیصد رہی، بیراج کی دائیں طرف کی دو کینال رائس اور دادو اب بھی بند ہیں۔
کوٹری بیراج میں مجموعی طور پر 60 فیصد پانی کی کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ کلری بھگار فیڈر میں 35 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جس سے کراچی کو پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اکرم واہ میں 72 فیصد، پرانی پھلیلی میں 47 فیصد اور نئی پھلیلی میں 70 فیصد قلت ریکارڈ کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: کیا سندھ میں نمکین پانی سے کاشتکاری کی جاسکتی ہے؟
پانی کی قلت کا فیصد میں کمی کا موازنہ معاہدے کے مطابق مختص پانی کے حساب سے یکم مئی کو کے 10 دن پانی کے بہاؤ کومدنظر رکھ کر کیا گیا ہے۔
گڈو بیراج میں 3 مئی کو پانی کا بہاؤ 37 ہزار 554 کیوسک، 4 مئی کو 35 ہزار 683 کیوسک، 5 مئی کو 33 ہزار 252 کیوسک اور 6 مئی کو 29 ہزار 819 کیوسک رہ گیا تھا، باقی دو بیراجوں کو آنے والے دنوں میں پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا، خاص طور پر کوٹری بیراج کو جو دریائے سندھ پر آخری بیراج ہے جس کے بائیں طرف چاول کی بوائی پہلے ہی شروع ہو چکی ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سیہون میں کسانوں کو مشورہ دیا کہ وہ پانی کی قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے چاول کی کاشت نہ کریں کیونکہ چاول کی کاشت میں بہت زیادہ پانی درکار ہوتا ہے۔
ایک اور عہدیدار نے بتایا کہ ارسا نے چشمہ کے بہاؤ میں اضافہ کیا ہے جو کہ 4 مئی کو 60 ہزار کیوسک، 5 مئی کو 70 ہزار کیوسک اور 5 مئی کو 72 ہزار کیوسک تھا، سندھ میں اس بہاؤ کے اثرات ایک ہفتے بعد نظر آئیں گے۔